امام جعفر صادق (ع) كے دور امامت كي چند خصوصيات



امام جعفر صادق عليہ السلام نے سياسي و حكومتي امور ميں دلچسپي لينے اور ان ميں مداخلت كرنے كي بجائے گوشہ نشيني كو ترجيح دي اور آپ اقتدار كو سنبھالنے كي ذرا بھر خواھش نہ ركھتے تھے اور نہ ھي اس كے لئے كسي قسم كي كوشش كا سوال پيدا ھوتا ھے كہ امام عليہ السلام اگر كوشش كرتے تو اقتدار كو اپنے ھاتھ ميں لے سكتے تھے۔ اس كے باوجود آپ خاموش كيوں رھے؟ اس عدم دلچسپي كي وجہ كيا ھوسكتي ھے؟ جبكہ فضا بھي امام كے حق ميں تھي۔ بالفرض اگر اس مقصد كے لئے آپ شھيد بھي ھو جاتے تو شھادت بھي آل محمد (ص) كے لئے سب سے بڑا اعزاز ھے۔ ان سوالات كا جواب ديتے ھوئے، ايك بار پھر ھم امام جعفر صادق عليہ السلام كي ھمہ جھت شخصيت كے بارے ميں كچھ روشني ڈالتے ھيں تاكہ حقيقت پوري طرح سے روشن ھو جائے۔ ھم نے پہلے عرض كيا ھے كہ اگر امام حسين عليہ السلام اس دور ميں ھوتے تو آپ كا انداز زندگي بالكل امام جعفر صادق عليہ السلام اور ديگر آئمہ طاھرين (ع) جيسا ھوتا چونكہ امام حسين عليہ السلام اور ديگر اماموں كے دور ھائے امامت ميں فرق تھا اس لئے ھر امام نے مصلحت و حكمت عملي اپناتے ھوئے امن و آشتي كا راستہ اختيار كيا۔ ھماري گفتگو كا محوريہ نھيں ھے كہ امام عليہ السلام نے اقتدار كيوں نھيں قبول كيا؟ بلكہ بات يہ ھے كہ آپ چپ كيوں رھے اور ميدان جنگ ميں آكر اپني جان جان آفرين كے حوالے كيوں نھيں كى؟

 

امام حسين (ع) اور امام صادق (ع) كے ادوار ميں باھمي فرق

 

ان دو اماموں كا آپس ميں ايك صدي كا فاصلہ ھے۔ امام حسين عليہ السلام كي شھادت سال ۶۱ ھجري كو ھوئي اور امام صادق عليہ السلام كي شھادت ۱۴۸ كو واقع ھوئي گويا ان دو اماموں كي شھادتيں ۸۷ سال ايك دوسرے سے فرق ركھتي ھيں۔ اس مدت ميں زمانہ بہت بدلا، حالات نے كروٹ لي اور دنيائے اسلام ميں گونا گوں تبديلياں ھوئيں۔ حضرت امام حسين عليہ السلام كے دور ميں صرف ايك مسئلہ خلافت تھا كہ جس پر اختلاف ھوا دوسرے لفظوں ميں ھر چيز خلافت ميں سموئي ھوئي تھى، اور خلافت ھي كو معيار زندگي سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اختلاف كا مقصد اور بحث كا ما حصل يہ تھا كہ كس كو "امير امت" متعين كيا جائے اور كس كو نہ كيا جائے۔ اسي وجہ سے خلافت كا تصور زندگي كے تمام شعبوں پر محيط تھا۔ معاويہ سياسي لحاظ سے بہت ھي طاقتور اور ظالم شخص تھا۔ اس كے دور حكومت ميں سانس لينا بھي مشكل تھا۔ لوگ حكومت وقت كے خلاف ايك جملہ تك نہ كہہ سكتے تھے۔ تاريخ ميں ملتا ھے كہ اگر كوئي شخص حضرت علي عليہ السلام كي فضيلت ميں كوئي حديث بيان كرنا چاھتا تو وہ اپنے اندر خوف محسوس كرتا تھا اور اس كو دھڑكا سا لگا رھتا كہ كھيں حكومت وقت كو پتہ نہ چل جائے۔ نماز جمعہ كے اجتماعات ميں حضرت علي عليہ السلام پر كھلے عام تبرا كيا جاتا تھا۔ امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كي موجودگي ميں منبر پر حضرت امير عليہ السلام پر (نعوذ باللہ) لعنت كي جاتي تھي۔ جب ھم امام حسين عليہ السلام كي تاريخ كا مطالعہ كرتے ھيں تو معلوم ھوتا ھے كہ اس وقت كا موسم كس قدر پتھريلا اور سخت تھا؟

 

كيسا عجيب دور تھا كہ امام حسين عليہ السلام جيسے امام سے ايك حديث، ايك جمعہ، ايك مكالمہ ايك خطبہ اور ايك تقرير اور ايك ملاقات كا ذكر نھيں ھے۔ عجيب قسم كي گھٹن تھي۔ لوگوں كو آپ سے ملنے نھيں ديا جاتا تھا۔آپ نے پچاس سالوں ميں كتني تلخياں ديكھيں۔ كتني پابندياں برداشت كيں۔ يہ صرف امام حسين عليہ السلام ھي جانتے ھيں يھاں تك آپ سے تين جملے بھي حديث كے نقل نھيں كيے گئے۔ آپ ھر لحاظ سے مصائب ميں گھرے ھوئے تھے۔يہ دور بھي گزر گيا جانے والے چلے گئے اور آنے والے آگئے بني اميہ كي حكومت ختم ھوئي اور بنو عباس كي حكومت شروع ھوئي اس وقت لوگوں ميں علمي و فكري لحاظ سے كافي تبديلي ھو چكي تھي۔ لوگ فكري لحاظ سے آزادي محسوس كرتے تھے۔ اس دور ميں جس تيزي سے علمي وفكري ترقي ھوئي اس كي تاريخ ميں كوئي نظير نھيں ھے۔ اسلامي تعليمات كي نشر واشاعت پر وسيع پيمانے پر كام ھونے لگا مثال كے طور پر علم قرات، علم تفسير، علم حديث، علم فقہ اور ديگر ادبي سرگرمياں عروج پر ھونے لگيں يھاں تك كہ طب، فلسفہ، نجوم اور رياضي وغيرہ جيسے علوم منظر عام پر آنے لگے۔

 

يہ سب كچھ تاريخ ميں موجود ھے كہ حالات كا رخ بدلنے سے لوگوں ميں علمي وفكري شعور پيدا ھوا۔ باصلاحيت افراد كو اپني صلاحيتيں آزمانے كا موقعہ ملا۔ يہ علمي فضا اور تعليمي ماحول امام محمد باقر عليہ السلام اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے زمانوں سے قبل وجود تك نہ ركھتا تھا۔ يہ سب كچھ صرف حالات بدلنے سے ھوا كہ لوگ اچانك علم و عمل، فكر و نظر كي باتيں سننے لگے اور پھر كيا ھوا كہ چھار سو علم كي روشني پھيلتي چلي گئي۔ اب اگر بنو عباس پابندي عائد كرنا بھي چاھتے تو ان كے بس سے باھر تھا۔ كيونكہ عربوں كے علاوہ دوسري قوميں مشرف بہ اسلام ھوچكي تھيں۔ ان قوموں ميں ايرانى غير معمولي حد تك روشن فكر تھے۔ ان ميں جوش و جذبہ بھي تھا اور علمي صلاحيت بھي۔ مصري اور شامى لوگ بھي فكري اعتبار سے خاصے زرخيز تھے۔ ان علاقوں ميں دنيا كے مختلف افراد آكر آباد ھوئے۔ پھر دنيا كے لوگوں كي آمد و رفت نے اس خطے كو علم و ادب كا گھوارا بنا ديا۔ مختلف قوميں، مختلف نظريات اور پھر بحث مباحثوں سے فضا ميں حيرت انگيز تبديلي رونما ھوئي۔ يھاں پر اسلام اور مسلمانوں كو غلبہ حاصل ھو چكا تھا۔ لوگ چاھتے تھے كہ اسلام كے بارے ميں زيادہ سے زيادہ معلومات حاصل كريں۔ دوسري طرف عرب قرآن مجيد ميں كچھ زيادہ غور و خوض نہ كرتے تھے، ليكن دوسري قوموں ميں قرآني تعليمات حاصل كرنے كے بارے ميں بہت زيادہ جذبہ كار فرما تھا۔ اس دور ميں قرآن مجيد كے ترجمہ، تفسير اور مفاھيم پر خاصہ كام ھوا اور لوگ قرآن مجيد كو بنيادي حيثيت دے كر بات كرتے تھے۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next