قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (1)



 

اھل تسنن اور اھل تشیع کے سیاسی اصول میں سے دو اھم اصلول کے سلسلہ میں بحث کی اور یہ کہ ان دونوں میں نظریاتی اعتبار سے کیا فرق ھے اور عملی طور پر تاریخ اور روحی اور معاشرتی عمارت کے لحاظ سے ان لوگوں نے اپنے ماننے والوں کو کس طرح ان کی پرورش کی ھے؟ ھم اس فصل میں تیسری اصل کے سلسلہ میں بحث اور چھان بین کریں گے اور پھر اصلی بحث یعنی تشیع و تسنن کے معیار تاریخ کو معاصر میں بیان کرکے ان دونوں کے درمیان فرق کو بیان کریں گے۔

جیساکہ گذشتہ فصل میں اس مطلب Ú©Ùˆ واضح کیا گیا Ú¾Û’ کہ اھل سنت Ú©Û’ سیاسی فکر Ú©Û’ جنم لینے میں جو عامل بنیادی حیثیت رکھتا Ú¾Û’ وہ یہ Ú¾Û’ کہ وہ لوگ قدرت Ú©Û’ تحفظ اور ایسی طاقت جو امنیت اور تحفظ Ú©Û’ ایجاد کرنے پر قادر Ú¾Û’ اس Ú©Û’ بارے میں حساس ھیں۔ حالنکہ اھل تشیع عدالت اور پیغمبر Ú©ÛŒ سنت Ú©Ùˆ Ú¾Ùˆ بہ Ú¾Ùˆ اسی انداز میں لاگو کرنے میں جس طرح آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت Ú©Û’ دور حیات میں جاری Ùˆ ساری تھی نہ وہ عدالت جس Ú©ÛŒ بعد میں تفسیر یا تعبیر کردی گئی Ú¾Û’ØŒ اس سلسلہ میں اپنی احساسی ت کا اظھار کرتے ھیں۔ ان Ú©Û’ نزدیک جو چیز  اھمیت بلکہ لازم اور قابل احترام اور تقدس Ú©ÛŒ حامل Ú¾Û’ ایک طرح سے محض ایک شجاع قوی، باعظمت ھونے اور شان Ùˆ شوکت Ú©Û’ حامل ھونے سے تعبیر Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’ جس Ú©Û’ سایہ میں امنیت اور تحفظ حاصل ھوتا Ú¾Û’ خواہ وہ امنیت اندرونی سرکشوں، باغیوں اور اشرار Ú©Û’ مقابل اورھو خواہ خارجی حملہ آورں اور تجاوز گروں Ú©Û’ مقابل Ú¾Ùˆ وہ پوری Ú¾Ùˆ جاتی Ú¾Û’ اگرچہ یہ بات ایک حدتک شیعوں Ú©Û’ نزدیک تائید شدہ Ú¾Û’ØŒ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں Ú¾Û’ کہ تمامی اقدار اور عظمت Ú©Ùˆ اسے دے دے اور اسے بلا قید Ùˆ شرط درست مان لیا جائے۔ اس لئے کہ مطلق قدرت نہ تو شیعوں Ú©Û’ کلامی اور فقھی اصول اور معیار Ú©Û’ مطابق Ú¾Û’ اور نہ Ú¾ÛŒ ائمہ اطھار Ùª Ú©ÛŒ سیرت اور روش اس Ú©ÛŒ تائید کرتی Ú¾Û’Û” اب دیکھنا یہ Ú¾Û’ کہ یہ اصل اھل تسنن Ú©Û’ درمیان کیوں اور کیسے وجود میں آئی اور Ú©Ù† اسباب Ùˆ عوامل سے اثر انداز ھوئی Ú¾Û’Û”

مختصر طورپر ھمیں یہ کھنا چاہئے کہ اس دوران تین اھم عامل اس میں دخیل رھے ھیں پھلا عامل مفھوم عدالت ھے، یہ مفھوم ان لوگوں کے درمیان شیعوں کے نزدیک پائے جانے والے عدالت کے فقھی و کلامی اور فلسفی مفھوم سے متفاوت ھے۔ دوسرا عامل قدیم زمانہ میں حکومتوں کے فرائض ھیں اور آخرکار تیسرا عامل تاریخی واقعیتوں اور ضرورتوں سے متعلق ھے کہ ھم ان میں سے ھر ایک کے سلسلہ میں مفصل بحث کریں گے۔

مفھوم عدالت

شیعوں اور سنیوںکے نزدیک اس کی وضاحت کرنے سے کھیں زیادہ عدالت کے مفھوم میں اختلاف ھے۔ واضح و روشن ھے اگرچہ معتزلی، مفھوم۔ عدالت کو درک کرنے کے لحاظ سے شیعوں سے نزدیک ھیں اور بعض موارد میں ایک ھی جیسے تھے، لیکن اشاعرہ نے جس مفھوم کو اخذ کیا ھے اس میں شیعوں سے بھت زیادہ فرق پایا جاتا ھے اور بعد میں یھی مکتب رائج ھوگیا اور اھل سنت کے اعتقادی اور فقھی مسائل اس کے زیراثر پھولے پھلے اور پروان چڑھے ۔

لیکن اس درمیان اھمیت کا حامل یہ تھا کہ عدالت کی جس تفسیر کو اشاعرہ نے پیش کیا وہ اصولاً اس طرح سے تھی کہ مفھوم عدالت کی قدروقیمت گھٹارھی تھی۔ مسئلہ یہ نھیں تھا کہ وہ لوگ اسے اھم اور حائز اھمیت سمجھتے تھے لیکن اس کی دوسری تفسیر کر رھی تھے، بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اول ھی سے مفھوم عدالت کی اس طرح تفسیر کرتے تھے کہ جس کی وجہ سے اپنی اھمیت کوختم کردیاتھا اور شاید ان کا مقصود بھی یھی رھا ھو۔انھوں نے جب حُسن و قُبح عقلی کا انکار کردیا در حقیقت انھوں نے عدالت کے مفھوم کو اس حدتک گرادیا کہ وہ ھر ظالمانہ اور جبارانہ عمل سے تطبیق دینے کے لائق ھو گا۔ بعبارت دیگر عدالت کی فکر اور آرزو جو بھی رھی ھے اپنی واقعیت کی حد سے نیچے آگئی اور قضاوت کا معیار، موجودہ حقیقت بن گیا نہ کہ اس بلند و بر تر اور وسیع مفھوم اور اس کے بارے میں قضاوت اور فیصلہ کیا جائے اور جب ایسا ھو ھی گیا تو اب کوئی ضرورت نہ تھی کہ اسے اس کے برترمفھوم سے مطابقت دی جائے یا مطابقت نہ دی جائے، جب حُسن و قُبح عقلی کو نظر انداز کردیا جائے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ حقیقتاً عدالت کے مفھوم اور اس کی ماھیت سے چشم پوشی کرلی گئی ھے اور نہ یہ کہ اس نفی کی بنیاد پر اس کے لئے کوئی دوسری نئی تعریف پیش کی گئی ھے۔[1]

 Ø¹Ø¯Ø§Ù„ت Ú©ÛŒ ایسی تفسیر موجودہ واقعیت سے بالاتر ھر قسم Ú©ÛŒ آرزو Ú©Ùˆ رد کرنے کا بھترین ذریعہ Ú¾Û’ عملی طور پر ایسا وقوع پذیر بھی ھوچکا Ú¾Û’Û” اس مقام پر ھماری بحث یہ نھیں Ú¾Û’ کہ عدالت کیا Ú¾Û’ یا اس Ú©ÛŒ رعایت ھوتی Ú¾Û’ یا نھیں؟ اصولی طورپر موجودہ صورت حال سے بھتر کوئی صورت باقی نھیں رہ گئی Ú¾Û’ تاکہ اس Ú©ÛŒ بنیاد پر عدالت Ú©ÛŒ تعریف اور موجودہ صورت حال Ú©ÛŒ چھان بین Ú©ÛŒ جاسکے۔[2]

کتاب المواقف کے مشھور موٴلف جو اشعری مذھب کے ایک عظیم عقلی رجحان کے مالک اور با ھوش متکلم ھیں وہ حسن و قبح عقلی کے سلسلہ میں فرماتے ھیں: ھر وہ شیٴ قبیح ھے جسے شریعت اسلامی قبیح قرار دے اور حسن اس کے بر خلاف ھے۔ عقل کے پاس اختیار حسن و قبح کو پھچاننے کے لئے کوئی معیار نھیں ھے اور یہ دونوں کسی دوسرے واقعی اور حقیقی امر انسان کے فعل کی طرف نھیںپلٹ تے ھیں تا کہ شریعت اس سے پردہ ھٹائے بلکہ یہ شریعت اسلامی ھے جو حسن و قبح کو وجود میں لاتی اور اس کی تعریف و توضیح کرتی ھے اور اگر مسئلہ برعکس ھو جائے یعنی جو چیز قبیح اور بری ھے اسے حسن اور خوباور خوب اور حسن کو قبیح اور زشت شمار کرے تو یہ کوئی محال بات نھیں ھے اور نتیجہ بھی برعکس ھوجائے گا۔

لیکن معتزلیوں کا کھنا ھے کہ حسن و قبح کی تشخیص کا معیار عقل ھے اور ایک انسان کا عمل بذاتہ یا اچھا ھے یا برا اور شریعت انھیں واقعیات کو کشف اور آشکارکرتی ھے، اب اس صورت میں نا کوئی معنی نھیں رکھتا ھے کہ مسئلہ برعکس ھو جائے۔ اس لئے کہ خوبی و بدی ھمیشہ واقعی اور حقیقی امر کی طرف پلٹتی ھے نہ کہ فرضی اور اعتباری امور میں۔[3]

جیسا کہ ھم نے بیان کیا خوب و بد کی ایسی تفسیر اور اس کے معیارمفھوم عدالت کے لئے کوئی گنجائش اور بنیادی طور پر عقل کا بھی کوئی مقام باقی نھیں رہ جا ئے گا اور سب سے زیادہ حائز احادیث اور دینی نصوص کے صحت و سقم کو تشخیص دینے والے عقلانی معیاروں اور موازین، خاص طور سے احادیث کے عقلی معیار کی نابودی کا باعث بھی ھوگا اور اس طرح کسی بھی ظلم وستم کو قبول کرنے کے لئے فکری، دینی، اعتقادی اھمیت اور نفسیاتی راہ ھموار کرنے کا باعث ھے وہ بھی دینی اور شرعی قبولیت کا باعث ھوگی، جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ ھر ظالمانہ اور فاسقانہ عمل کے لئے حالت فراھم کردے گا۔ اس طرح سے حکام اور علمائے سوء کو قانونی حیثیت حاصل ھوجائے گی اور انھیں بھترین پشت پناہ مل جائے گا تاکہ وہ اپنی خلاف و رزیوں اور مظالم کو دینی رنگ دیکر اپنی من مانی کریں اور جو چیز چاھیں اسے حاصل کرلیں گے اور زیاد اھمیت کا حامل یہ کہ دین بھی اس قابلیت کو پالے گا تاکہ وہ اس طرح اس سے سوئے استفادہ کرسکیں۔[4]



1 2 3 4 5 6 7 8 9 next