قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (1)



معاشرہ کے قوی اور مقتدر افراد کا دین کے نام پر ناجائز استفادہ کرنا یہ بھانہ بناتے ھوئے کہ عقل خطا کرسکتی ھے، ان کے ھمراہ رھا ھے۔ جب عقل اپنی تمامتوانائیوں اور حدو داربعہ سے گریزاں ھو کر میدان چھوڑ دے، خصوصاً دینی مفاھیم میں تو ظلم و بربریت اور خرافات اس کی جگہ حاکم ھوجائیں گی اور ایسے واقعات دین سے سوئے استفادہ کرنے والوں کا ھمیشہ سے مطلوب رھے ھیں۔ اور اسی اعتبار سے جب حساس ترین اور سب سے زیادہ اھمیت کے حامل دینی مباحث میں سے ایک، مسئلہ عدالت، اگر غلط قرار دے دیا جائے تو خوا مخواہ ایسے نتایئج حاصل ھونگے۔

دو مختلف تفسیروں کے نتائج

اس مقام پر اس نکتہ کو اضافہ کرنا بھی ضروری ھے کہ عدالت کے مسئلہ میں معتزلہ، شیعہ اور اشاعرہ کا مفھوم عدالت میں اختلاف موجب نھیں بنا کہ وہ پوری تاریخ میں اپنے معاشرتی اور سیاسی نظام کی اساسی بنیاد ڈالیں بلکہ یہ دونوں گروہ کم و بیش عمل میں یکساں رھے ھیں اور اصل عدالت کا عقیدہ رکھنا سیاسی اور معاشرتی عدالت کو اپنے ھمراہ نھیں لایا۔ مامون و معتصم اور واثق کے دربار میں موجود معتزلیوں اور قبل و بعد کے اشعریوں اور اشعری رجحان رکھنے والوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نھیں تھا، اگرچہ مذکورہ خلفا اور خصوصاً مامون، کہ اس کے قبل و بعد کے دوسرے خلفا کے مقابلہ میں اس کی روش میں محسوس فرق پایا جاتا تھا اور اس کا ایسا ھونا اس کی فکری آزادی اور علمی شخصیت ھونے کی وجہ سے تھا نہ یہ کہ اس قریبی معتزلی مصاحیین کی یاد آوری اور توجھات اس بات کی باعث ھو ئی ھیں۔[5]

شیعہ بھی کافی حد تک اس حکم میں شامل ھیں اور اس واقعیت کو بمشکل قبول کیا جا سکتا ھے کہ طول تاریخ میں شیعہ سلاطین سنی سلاطین کے مقابلہ میں بیشتر عدالت کے حامل رھے ھیں۔[6] اسلامی شرق میں سلاطین کی عدالت دوستی اور عدالت کا وسیع کرنا جھاں سماجی امور کو ادارہ کرنے کے لئے سیاسی اور معاشرتی کمیٹیوں کا مصالح اور اقتضاکی بنا پر فقدان تھا اور ان کے ذاتی فیصلوں کی کوئی اھمیت نھیں تھی اور تمام چیزوں سے زیادہ جھاں وہ حکومت کرتے تھے اس میں اندرونی خواھشات اور ذاتی رجحان کو عمل دخل تھا۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود، اس حقیقت کا انکار نھیں کیا جاسکتا کہ یہ دونوں یعنی معتزلی اور بالخصوص اشاعرہ اور شیعہ اپنے معاشرتی اقدام کے مرحلہ میں ایک نظام حاکم کو درست کرنے کے لئے یا اس کو ختم کرکے ایک عادلانہ نظام کی بنیاد ڈالنا دو قسم کا تھا اور دو طرح سے عمل کیا ھے۔ بعبارت دیگر جس طرح سے ان دونوں نے تفسیر کی بھی اس کے مطابق عدالت کے عقیدہ رکھنے کا نتیجہ حاکم کے سامنے استقامت اور پائیداری سے معلوم ھوجائے گا۔ سب سے اھم ترین عوامل میں سے ایک عامل جو شیعوں اور معتزلیوں کو جبردوست، جبر کی ترویج کرنے والے جباروں کے مقابل استقامت اور پائیداری کی دعوت دیتا ھے وہ ان لوگوں کا مسئلہ عدالت کا درک کرنا ھے۔[7]اور چونکہ ایسی تفسیر سرے سے ھی اشعریوں کی توجہ اور اعتقاد کا مرکز نھیں تھی لہٰذا معنیٰ ھی نھیں رکھتا کہ اس کے سھارے سلطان کے سامنے وہ قیام کرتے۔ وہ لوگ حسن و قبح عقلی کا انکار کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک موجودہ واقعیت سے بالاتر تشخیص دینے کے لئے جو معیار ھونا چاھیئے تھا وہ معیار بھی موجود نھیں تھا۔

اسی وجہ سے معتزلیوں اور خاص طور سے شیعوں کے نزدیک بھت زیادہ عدالت طلب تحریکوں کا سراغ لگایا جاسکتا ھے۔ لیکن اس سے مشابہ نمونے اشعریوں، اھل حدیث اور سلفیوں کی تاریخ میں مشاھدہ نھیں ھوتا۔ جو چیز عملی طور سے ان لوگوں کے درمیان موجود رھا ھے اور اب بھی ھے ان کے بقول وہ ایسی تحریکیں تھیں جو بدعتوں کو ختم کرنے اور سنت کو باقی رکھنے اور اس کے دفاع کے عنوان سے رھی ھیں۔[8]

البتہ ان دونوں کا مفھوم عدالت کے بارے میں مختلف تفسیر یا ادراک تنھا عامل موجب نھیں ھوا ھے۔ بلکہ اس عامل کے علاوہ دوسرے عوامل بھی موجود تھے لیکن بلا شک و شبہہ فھم بھت ھی اھم حصہ کا حامل ھے اور اسی اھمیت کا حامل رھے گا۔ بعبارت دیگر اگرچہ اصل عدالت کا عقیدہ عملی طور پر سیاسی اور معاشرتی عدالت کا تحفہ نہ لاپایا لیکن تنھا اسے قبول کر لینا عدالت خواھی کو وجود میں لانے کے لئے بھترین سبب تھا۔

اسلام کی پوری تاریخ میں عدالت اور آزادی خواھی کی تحریکوں کی داستان خود اس نکتہ کی بھترین موٴید ھے۔ اور ایسے قیام کااھل حدیث اور اشعری مسلک میں نام و نشان بھی نھیں ملتاجبکہ تشیع اور معتزلہ کے یھاں ایسی تحریکوں کے بے شمار شواھد پائے جاتے ھیں۔ اور یہ رابطے اس قدر اطمینان بخش اور قوی تھے کہ ایسے زمانوں میں جب بعض اسباب کے تحت ایسے رجحانات وجود میں آئے تو معتزلہ کی فکر کے استقبال اور خاص طور سے شیعی افکار کے حالات فراھم ھوگئے۔ اگرچہ شیعی افکار اور عقائد بعض مختلف دلائل کے سبب عدالت کے اصل اعتقاد سے کھیں زیادہ قابل قبول ھوا، لیکن ھر صورت میں اس اصل پر عقیدہ رکھنا اساسی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

اور یھی وہ تنھا عامل تھا کہ جس کی وجہ سے معتزلہ اور مخصوصا شیعہ حکام اور صاحبان اقتدار اور وہ علما اور جو مبلغین ان سے وابستہ تھے ان کی جانب سے ھونے والے حملوں کا شکار رھے ھیں۔ ایک سماج میں حاکم استبداد خود ھی عدالت خواھی اور حریت طلبی کو فروغ دینے کا اصلی موجب تھا۔ لیکن چونکہ یہ اسلامی فکر، حاکم وقت کے ھاتھوں رواج پارھی تھی اور چہ بسا پروان چڑھ رھی تھی اصل مفھوم عدالت پر عقیدہ نہ رکھنے کی بناپر اس کی ضرورت کو پورا کرنے میں قاصر تھے، لہٰذا انقلابی لوگ اس بات پر مجبور تھے کہ ان مذاھب کی پناہ لیں جو عدالت خواھی کے حامی اور اس کی تشویق کرتے تھے[9] اور چونکہ معتزلہ اور شیعہ ایسے تھے لہٰذا ان کے بدنام کرنے کے لئے بھت زیادہ کوشش کی گئی اور ان سے منحرف کرنے میں کوئی کسر باقی نھیں رکھی۔ البتہ ان کی یہ کوششیں بے نتیجہ بھی نھیں تھی، اس لئے کہ آج معتزلہ اور شیعیت کی نسبت جو بھی بدگمانیاں اھل سنت کے نزدیک ھیں وہ سب اسی غلط پروپیگنڈوں اور سوئے تبلیغات کا نتیجہ تھیں۔[10]

ابھی تک جو بحث کی گئی ھے عدالت کے کلامی مفھوم کے بارے میں تھی۔ اب ھمیں یہ دیکھنا ھوگا کہ اس کا فقھی مفھوم کیا تھا؟ اور اس کے کیا آثار رونما ھوئے؟ اس مقام پر اس کے پھلے مورد کے برخلاف، معتزلی بھی غیر معتزلی کی طرح ھیں اختلاف صرف شیعہ اور غیر شیعہ کے درمیان ھے۔

عدالت کا فقھی مفھوم

 ÙˆØ§Ù‚عیت تو یہ Ú¾Û’ کہ عدالت کا یہ مفھوم اھل سنت اور اھل تشیع Ú©Û’ نزدیک فقھی لحاظ سے زیادہ فرق نھیں Ú¾Û’ صرف بنیادی اختلاف ان موارد میںھے کہ جھاں عدالت Ú©Ùˆ اساسی شرط مانا گیا Ú¾Û’ کہ اس میں سب سے اھم اور فیصلہ Ú©Ù† امام جماعت، امام جمعہ اور حاکم میں Ú¾Û’Û” شیعوں Ú©Û’ نزدیک ان تمام موارد میں عدالت Ú©Ùˆ شرط مانا گیا Ú¾Û’ لیکن اھل سنت امام جمعہ Ùˆ جماعت Ú©Û’ بارے میں اس شرط Ú©Û’ قائل نھیں ھیں اور صرف ان میں سے بعض افراد فاسق اور بدعت گذار Ú©ÛŒ امامت Ú©Ùˆ مکروہ قرار دیتے ھیں۔[11]جیساکہ ان میں سے اکثر حاکم میں بھی عدالت Ú©Ùˆ شرط نھیں مانتے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next