قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (1)



 



[1] اس طرز تفکر کے عملی نمونہ کتاب العواصم من القواصم ابن عربی اور مخصوصا محب الدین خطیب کے حواشی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ھے۔ یہ دونوں کہ جھاں تک ان لوگوں کی خطاوٴں کی توجیہ و تفسیر کرتے ھیں جو ان سے دفاع کرتے ھیں ملاحظہ کیا جاسکتا ھے۔ عملی طور پر واقعیت کو معیار قرادیتے ھیں، ان لوگوں کی نظر میں عدالت وھی ھے جو اپنی ابتدا سے تھی نہ یہ کہ کوئی عظیم مفھوم ھے کہ جسے موجودہ صورت حال سے مطابقت دے۔

آپ زیاد کی طرف سے معاویہ کے تعارف کو ملاحظہ کریں جس میں صرف اور صرف ایک سیاسی پھلو ھے اور اس کی قدرت کو دوام بخشنا منظور ھے۔ الجوھر النفیس فی سیاسة الرئیس ص/۷۳۔

مثلاآپ ابن عربی جو معاویہ کا دفاع کرتا ھے کی توجیہ کا مطالعہ کریں جب کہ اسی نے ابن عدی کے قتل کا حکم دیتا ھے کہ جس پر ھر ایک نے اعتراض کیا یھاں تک کہ عائشہ نے بھی اعتراض کیا علی و بنوہ ص/۲۱۹ پر ابن عربی کی توجیہ کو ملاحظہ کریں: اگر یہ مان لیاجائے کہ ابن حجر کو قتل کرنا ظلم تھا مگر یہ کہ قتل کا موجب فراھم ھوجائے تو میں کھوں گا: اصل یہ ھے کہ امام کا قتل کرنا حق ھے اور جو اس قتل کے ظلم ھونے کا قائل ھے اسے اپنے اس مدعا کو ثابت کرنا ھوگا اور اگر یہ ظلم تھا تو پھر معاویہ پرتمام گھروں میں لعنت کرنا چاہئے تھا۔ جب کہ بغداد جو عباسیوں کی خلافت کا مرکز تھا اور امویوں سے ان کی رقابت کسی سے پوشیدہ نھیں ھے۔ اسی بغداد کی مسجدوں کے دروازوں پر یہ جملہ لکھے ھوا ھے آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت کے بعد بھترین لوگوں میں ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی اور پھر خالالموٴمنین معاویہ رضی اللہ عنھم ھیں۔ ص/۲۱۳۔

[2] اس طرح کے فکری نمونہ ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حنبل کے نظریات اور آثار میں ملاحظہ کرسکتے ھیں۔ السیاسة والشریعة ص/۱۰و ۲۱؛ اعلام االموقعین، ج/۳، ص/۳۔ ۶ الاحکام السلطانیة اور نیز گذشتہ فصل کی ۵۴ویں توضیحات کو ملاحظہ کریں۔

[3] المواقف فی علم الاصول ص/۳۲۳

[4] مزید وضاحت کے لئے من العقیدة الی الثورة نامی کتاب، ج/۱، ص/۳۔ ۴۱ کے مقدمہ ملاحظہ ھو۔

[5] ملاحظہ کریں۔

 Amir H.Saddiqi Caliphate and kingship ,pp .2.5

[6] یہ بات شیعوں کے نزدیک بھی قابل قبول ھے، رجوع کریں الشیعة والحاکمون ص/۷،۸ اسی طرح الفکر السیاسی الشیعی ص/۲۶۸۔ ۲۷۱۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next