قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (1)



ایک مسلمان کے نزدیک محسوس ترین اور زیادہ سے زیادہ قابل فھم ایمان کا نمونہ نماز رھی ھے اور اب بھی ھے۔ اس واقعیت کے پیش نظر کہ صدر اسلام میں مسلمان ھمیشہ نماز جماعت میں شریک ھوا کرتے تھے اور نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے اور یہ نکتہ بھی کہ نماز ھمیشہ خلفا، حاکموں اور ان کے نمایندوںکی امامت میں ھوا کرتی تھی اور لوگوں کی نظر میں یہ امامت حاکمیت اور خلیفہ کی مشروعیت کی علامت تھی۔ کیا واقعیت یہ نھیں ھے کہ شرط عدالت کو قبول نہ کرنا، موجودہ صورت اور اس کی مشروعیت کو قبول کرنے میں ھر عامل سے زیادہ موٴثر رھی ھے۔

یہ نکتہ بالخصوص ابتدائی صدیوںکے لئے زیادہ صحیح ھے۔ اس لئے کہ اس دور میں خود مسلمان نماز جمعہ و جماعت میں شریک ھونا اپنا لازمی فریضہ سمجھتے تھے اور خود حکام اس کی بہ نسبت نھایت حساس تھے اور حتی لوگ معاشرہ کے تمامی لوگوں کے ساتھ زور و شور سے نماز جمعہ اور دوسری جماعتوں میں شرکت کرتے تھیاور ان دو نمازوں مخصوصا نماز جمعہ کی امامت، حکام کے سپرد تھی۔ لیکن زمانے کے ھذرنے کے ساتھ ساتھ یہ حساسیت بعض وجودھات کی بنیاد پر شدت سے کم ھوتی گئی اور وہ نمازیں حکام کے علاوہ دوسروں کے ذریعہ ادا ھونے لگی، البتہ عموماً بلکہ مکمل طور سے جو بلا واسطہ یا بالواسطہ، انھیں کی طرف سے منصوب ھوتے تھے، قائم کی جارھی تھی ۔[31] لیکن بھر صورت اس واقعہ سے پیدا ھونے والے اثرات، خاص طور سے اس کمی کے وجود میں آنے سے پھلے ھی، مسلمانوں کی، فقھی اور کلامی بنیاد اور ان کی دینی اور نفسیاتی بناوٹ کو متاٴثر کر دیا۔

یھاں اھم مسئلہ یہ نھیں تھا کہ حاکم Ú©ÛŒ امامت Ú©Ùˆ قبول کرلینے سے، اس Ú©ÛŒ حاکمیت Ú©Ùˆ قبول کرلیا جاتا تھا۔  Ø¨Ù„کہ یھاں پر زیادہ اھمیت Ú©ÛŒ حامل یہ فکر تھی کہ جس Ú©ÛŒ بنیاد پر، ظالم Ùˆ جابر اور فاسق Ùˆ فاجر Ú©ÛŒ امامت Ú©Ùˆ جائز قرار دے رھی تھی جو زندگی Ú©Û’ مختلف امور میں سرایت کر گئی اور جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ ایسے حاکموں Ú©ÛŒ اقتدا میں نماز ادا کرنا نہ تنھا صحیح تھی بلکہ ان Ú©Ùˆ صدقات اور زکات اور ان Ú©Û’ ھمراہ جھاد اور حج بھی درست Ú¾Û’Û” اس حدتک کہ ابن حنبل جیسا زاھد اور محتاطانسان یہ Ú©Ú¾Ù†Û’ پر مجبور ھوگیا:” جھاد حاکموں Ú©Û’ ساتھ تا روز قیامت خواہ وہ عادل Ú¾ÙˆÚº یا فاسق صحیح Ú¾Û’ اور اسی طرح سے غنائم Ú©ÛŒ تقسیم اور حدود الٰھی Ú©Ùˆ جاری کرنا بھی ان Ú©ÛŒ طرف سے صحیح Ú¾Û’ کسی Ú©Ùˆ یہ حق حاصل نھیں Ú¾Û’ کہ وہ انھیں طعنہ دے اور ان(حکام) مقابلہ میں کھڑا ھوجائے۔ انھیں صدقات دینا جائز اور نافذ Ú¾Û’ لہٰذا جو شخص انھیں صدقے دے خواہ وہ اچھے Ú¾ÙˆÚº یا برے، وہ بری الذمہ ھوجائے گا۔ ان Ú©Û’ ساتھ نماز جمعہ پڑھنا جائز Ú¾Û’ اور جو ان Ú©ÛŒ اقتدا میں Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بعد دوبارہ اس کا اعادہ کرے تو وہ سلف صالح اور پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ سیرت کا تارک اور بدعت گذار ھوگا۔ اگر کوئی امیروں Ú©ÛŒ اقتدا میں نماز Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ اور اس Ú©ÛŒ صحت کا عقیدہ نہ رکھتا Ú¾Ùˆ خواہ وہ عادل Ú¾ÙˆÚº یا عادل نہ Ú¾ÙˆÚº مجزی Ú¾Û’ گویا وہ ایسا Ú¾Û’ کہ اس Ù†Û’ نماز جمعہ Ú©ÛŒ فضیلت Ú©Ùˆ بالکل درک نھیں کیا Ú¾Û’Û” سنت تو یہ Ú¾Û’ کہ ان Ú©ÛŒ اقتدا میں دو رکعت نماز بجا لائی جائے اور اس پر ایمان رکھے کہ یہ نماز تام Ùˆ تمام Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ اور اس سلسلہ میں معمولی سا بھی روا نھیں Ú¾Û’Û”[32]

اب اس نکتہ کی بررسی کرنا ھے کہ یہ فکر کیا تھی اور کھاں سے پیدا ھوئی۔ اس فکر کی جڑ کھاں سے ھے: جس کے سھارے مذکورہ امور پر صحت کی مھر لگائی جاتی تھی، اس نکتہ میں پوشیدہ ھے کہ بعض امور جیسے نماز، جھاد اور زکواة جو خود مطلوب ھیں اور انھیں انجام دینے کے لئے شارع نے حکم دیا ھے۔ اس مقام پر ان کا بجالانا اھم ھے نہ یہ کہ انھیں کیسے انجام دیا جائے۔ اھم تو یہ ھے کہ مکلف ان امور کو انھیں ضوابط کے مطابق انجام دے جنھیں شارع نے مقرر کیا ھے۔ لیکن یہ اعمال کس کی ھمراھی میں انجام پذیر ھوں، یہ کوئی اھم بات نھیں ھے۔

اھم تو یہ ھے کہ نماز جمعہ و جماعت قائم ھو اور مسلمان لوگ اس میں شرکت کریں، اھم یہ نھیں ھے کہ اس کی امامت کون کر رھاھے۔ اھم تو یہ ھے کہ جھاد کا فریضہ ترک نہ ھو۔ لیکن یہ جھاد کس شخص کی سپہ سالاری میں کیا جائے یہ اتنی اھمیت نھیں رکھتا ھے اھم تو یہ ھے کہ صدقات و زکوة ایک شرعی فریضہ ھونے کی وجہ سے ادا کیا جائے،لیکن یہ کہ اسے کس کے حوالہ کیا جائے اور کھاں مصرف کیا جائے یہ مورد توجہ نھیں ھے۔ رقوم شرعیہ کے لینے والے خواہ عادل ھوں یا عادل نہ ھوں، بلکہ فاسق و فاجر ھی کیوں نہ ھوں انھیں ادا کیا جائے!۔

اسی نکتہ کو حسن بصری اس مقام پر بیان کرتے ھیں، جھاں کوئی شخص کسی منافق کی امامت میں نماز پڑھ لے، اس طرح وضاحت کرتے ھیں: ”کسی مومن شخص کے کسی منافق کی امامت میں نماز پڑھنے سے اس کی نماز کو کوئی نقصان نھیں پھنچے گا اور مومن کی اقتدا میں کسی منافق کا نماز ادا کرنا اسے کوئی فائدہ نھیں پھونچائے گا۔ [33] لیکن اس سے کھیں زیادہ صریح انداز میں عبداللہ بن عمر بیان کرتے ھیں: ”نماز ایک حسنہ ھے۔ لہٰذا میرے لئے کوئی فرق نھیں پڑتا کہ میری نماز میں کون شریک ھو۔[34]

اس سلسلہ میں ابن حزم فرماتے ھیں:” میں اصحاب رسول میں کسی صحابی کو نھیں پھچانتا کہ جو اپنی نماز کو مختار، عبیدا للہ ابن زیاد، حجاج اور نہ اس سے زیادہ کسی فاسق کی امامت میں پڑھنے سے انکار کیا ھو“۔ خداوندعالم فرماتا ھے:” نیکیوں اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور معصیت اور دشمنی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو“۔ اوریہ مسلم ھے کہ مساجد میں نماز اور اس کے اقامہ سے بھتر کوئی خوبی نھیں ھے، پس جو بھی اس کی نیکی کی طرف دعوت دے تو اس نیک امر میں اس کی اجابت کرنا واجب ھے۔ نماز کو ترک کرنے اور مساجد کو بند کردینے سے بڑا کوئی گناہ نھیں ھے۔ پس ھمارے اوپر حرام ھے کہ ھم اس میں کسی کی مدد کریں اور یھی حکم روزہ، جھاد اور حج کا ھے۔ پس اگر کوئی ان کی طرف ھمیں دعوت دے تو ھم اس نیک امر میں اس کے ساتھ ھوں گے اور اجر کوئی ھمیں برائیوں کی طرف دعوت دے تو اس کی اجابت نہ کرتے ھوئے اس کی مدد نہ کریں گے۔ یہ نظریہ ابوحنیفہ، شافعی اور ابو سلیمان کا ھے۔[35]

اور ابن قدامہ جو حنبلی فقہ کے بزرگ فقھا میں سے ھیں وہ بھی فرماتے ھیں:” ایک مسلمان شخص پر واجب ھے کہ وہ نماز جمعہ اور عیدین میں شریک ھو اگرچہ ان نمازوں کا امام فاسق و فاجر اور بدعت گذار ھی کیوں نہ ھو۔ اس لئے کہ یہ ا سلام کے ظاھری شعائر میں سے ھیں کہ جسے اولیائے مسلمین قائم کئے ھوئے ھیں۔ پس ان کی امامت میں ان نمازوں کانہ پڑھنا ان کی تعطیل اور ختم کردینے کا پیش خیمہ ھے۔[36]

 

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next