قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (1)



آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت:اور خلفائے راشدین کے دور کی میراث کا تقاضا یہ تھا کہ آنے والے خلفا اور ان کے حکام ان والی لوگ، ان کے نمایندے اور اس کے نماز جمعہ و جماعت کی امامت کو خود انجام دیتے رھے ھیں۔اموی خلفا اس سے کم پر راضی نھیں ھوتے تھے۔ انھوں نے جو کچھ انجام دیا وہ اس وجہ سے انجام نھیں دیاکہ وہ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت اور خلفا راشدین کے طور و طریقہ کو لا گو کر رھے تھے بلکہ وہ تو تنھا اس واسطے تھا کہ اس کو چھوڑ دینا حکومت اور ان کی مشروعیت اور قانونی حیژیت پانے کے مغایر اور مخالف تھا وہ لوگ قدرت اور حکومت چاھتے تھے اور یہ اسی اور یہ چیزیں اسی وقت مل سکتی تھیں جب حاکم اور صاحب قدر نماز جمعہ و جماعت کو برپا کریں اور اسکی امامت کو انجام دیں، چونکہ ایسا تھا لہٰذا وہ(اموی حکام ) ان دو نمازوں کی امامت کے فرائض کو خدھی انجام دیتے تھے۔

 Ø§Ø³ دور میں یہ ایک ضرورت بھی تھی اگر Ú¾Ù… اس دور Ú©ÛŒ تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح Ú¾Ùˆ جائے Ú¯ÛŒ کہ اموی نماز Ùˆ جماعت Ú©ÛŒ امامت اور خاص طور سے جمعہ Ú©ÛŒ امامت Ú©Û’ فرائض Ú©Ùˆ انجام دینے Ú©ÛŒ طرف بھت مائل نھیں تھے۔ اس لئے کہ امام جمعہ اس بات Ú©Û’ لئے مجبور تھا کہ وہ خود نماز جمعہ کا خطبہ دے اور یہ بات ان Ú©Û’ لئے دشوار تھی۔اس سلسلہ میں Ú¯Ù„Úˆ زیھراس نکتہ Ú©Û’ ضمن میں کھتا Ú¾Û’:” اموی خلفا Ú©Û’ لئے خطبہ دینا کوئی آسان کام نھیں تھا لیکن وہ خطبہ دینے Ú©Û’ لئے مجبور تھے تاکہ وہ اس طرح سے لوگو کواپنی ریاست اور امور داری Ú©ÛŒ تلقین اور یاد دھانی کراسکیں۔ عبدالملک سے جب سوال کیا گیا کہ کیوں اتنی جلدی تمھاری داڑھی سفید ھوگئی Ú¾Û’ ؟تو اس Ù†Û’ جواب میں کھا:” میری داڑھی سفید کیوں نہ Ú¾Ùˆ جائے حالا نکہ ھفتہ میں ایک بار خطبہ دینے اور اپنی فکر Ú©Ùˆ دوسروں Ú©ÛŒ قضاوت Ú©Û’ لئے پیش کرنے پر مجبور Ú¾ÙˆÚºÛ”[21]

خطبہ دینا تنھا اموی خلفا کے لئے سخت نھیں تھا۔ بلکہ ان کی طرف سے منصوب والیوں کے لئے بھی محبوب نھیں تھا۔ یھاں تک کہ خطابت میں مشھور، عبید اللہ ابن زیاد اسے اپنی امارت کی نعمت کے لئے منحوس مانتا تھا۔[22] ایک دوسرا والی لوگوں کے سامنے اس طرح اقرار کرتا ھے:” امامت سے پھلے جمعہ میرے لئے دنوں میں بھترین دن تھا لیکن یھی اب میرے نزدیک بدترین دنوں میں سے ایک دن ھے اس لئے کہ اس میںخطبہ دینے کے لئے مجبور ھوتا ھوں۔“[23]

دوسری طرف مسئلہ یہ تھا کہ خود مسلمین جماعتوں اور جمعہ میں شریک ھونے پر مجبور تھے۔ گذشتہ بزرگوں کی سیرت بھی اس بات کی مقتضی تھی اور دینی نصوص بھی اس کی سفارش کررھی تھیں۔ بلکہ یہ شرعی فرائض میں سے ایک فریضہ تھا۔ لیکن اس مقام پر اس مطلب کااضافہ کرنا ضروری ھے کے اسلام کے آغاز میں حتیٰ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات میں،لوگوں سے نمازجمعہ و جماعت میں شرکت کا مطالبہ کیا جاتا تھا تاکہ جماعتوں اور جمعے میں شرکت کریں اور اس امر سے گریز کرنے والوں کو سخت سزا دی جاتی تھی۔[24]یھاں مسئلہ یہ نھیں تھا کہ ایک فرد نماز جماعت اور جمعہ مخصوصا نماز جمعہ میں شریک نہ ھونا ایک واجب کا چھوڑ دیناھے بلکہ اھم مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان نماز وں کو چھوڑ ھی نھیں سکتا تھا۔ اس کو ان نمازوں میں شریک ھونے پر مجبور کیا جاتا تھا، اس لئے اس کا نماز میں شریک نہ ھونا لوگوں کی طرف سے بعض یا تمام موارد میں دین کو چھوڑ دینے کے معنی میں تھا، یا موجودہ حاکمیت کے انکار یا کم از کم اس کو قانونی اور جائز نہ سمجھنے اور واجب الاطاعة نہ ماننے کے مترادف تھا۔ اور کوئی بھی اموی حاکم مخصوصا اموی ظالم حکام کے لئے قابل تحمل نھیں تھا۔[25]

شرط عدالت کا انکار

ان حالات اور مجبوریوں کے ھوتے ھوئے ان کے پاس اس کے، علاوہ کوئی اور چارہٴ کارھی نھیں تھا کہ وہ(اموی حکام)نماز جمعہ و جماعت میں امام کی عدالت کا انکار کردیں۔ امویوں خاندان کی سب سے زیادہ پابند فردعمر بن عبدالعزیز کے علاوہ کہ وہ کاملاً ایک استثنائی انسان تھا، ایک عنوان سے خود معاویہ تھا۔ اس کی رفتار اس چیز سے جس کی رعایت شرع کی نظر اور گذشتہ خلفا کی روش میں کم سے کم ضروری اور قابل عمل تھی،دونوں میں بڑا فرق تھا(کھیں سے دیندار نھیں لگ رھے تھے۔) اس نے آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت اور خلفا راشدین کے دور میں رائج نماز جمعہ کو ایک دوسرے انداز میں ادا کی۔( وہ پھلا شخص ھے کہ جس نے نماز جمعہ کے خطبہ کو بیٹھ کر پڑھا۔)[26]اس کے بعد خلفا اور حکمرانوں کی حالت اس سے کھیںبد تر ھوگئی گویا وہ پوری طرح دین سے بیگانہ ھوچکے ھیں۔ ان کی فکریں شھوت رانی اور ریاست کے علاوہ کچھ اور نھیں سوچتی تھیں۔ قدرت انھیں لوگوں کے ھاتھ میں تھی اور نماز جماعت اور جمعہ کی امامت بھی خود وھی لوگ کیا کرتے تھے اور عوام لوگ بھی نماز میں ان کی اقتدا کرنے پر مجبور تھے۔ اب یہ ایک الگ مسئلہ ھے کہ ان کی اقتدا میں پڑھی جانے والی نمازیں کفایت کریں گی یا نھیں؟ اور یہ خود مسئلہ اس کی فرع بھی کہ ان نمازوں کی امامت کرنے والا انسان جامع الشرائط بھی ھے یا نھیں ؟اور اصولی طورپر وہ شرائط کیا ھیں ؟ عدالت اور گناھوں سے پرھیز یا لااقل عدم تکرار اس کی شرائط میں سے ھے یا نھیں؟ کیا اس بات کا امکان پایاجاتا ھے کہ اس فاسق و فاجر اور جائر فرد کو امام جماعت بنا دیا جائے؟ جو کسی بھی ظلم کے کرنے سے پیچھے نھیں ھٹتا، یا ایسے فرد کو امام جماعت نھیں بنایا جاسکتا؟ اس کی پھلی صورت میں کیا اس امام کی اقتدا کرنے والوں کی نماز صحیح ھوگی یا نھیں؟

لہٰذا ان سب کا اصلی راہ حل یہ تھا کہ اس میں امام کی عدالت کا ھی سرِے سے انکار کردیا جائے۔ البتہ اگرامویوں کے آتے ھی یہ تغیر آجاتا تو پھر حاکمیت اور حاکم کی مشروعیت اور امام جمعہ و جماعت میں کوئی تلازم باقی نہ رہ جاتا اور قوی احتمال کی بناپر اس مقام پر بھی عدالت دوسرے مواردکی طرح جیسے قاضی اور گواہ وغیرہ کے لئے بھی قابل انکار نہ ھوتی۔ لیکن ایسا نہ ھوسکا لہٰذا ان لوگوں نے امام جمعہ و جماعت کے منصوص شرائط میں اس حدتک توجیہ و تفسیر کی کہ عملی طورپر شرط عدالت کی شرط کا انکار کردیا جائے یا فاسق و فاجر کی اقتدا فقط کراھت کی حدتک پھنچ جائے۔[27]

البتہ شیعوںکو ایسی کسی مشکل کا سامنا نھیں کرنا پڑا۔ وہ امویوں کو بالکل غاصب اور ناجائز سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس وقت پیش آنے والے واقعات اور حالات کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں کسی مشکل سے روبرو نھیں ھوئے اور بالتبع کسی توجیہ و تفسیر کو قبول کرنے کے لئے مجبور نھیں تھے۔ اس نصوص کے علاوہ ائمہ معصومین ٪ کی جانب سے جو احادیث ان تک پھونچی تھیں، ان میں واضح طورپر امام جمعہ اور جماعت کی شرائط میں سے ایک شرط خود عدالت تھی۔[28] البتہ اس کا یہ مطلب ھر گز نھیں ھے کہ گذشتہ ادوار میں شیعہ حضرات بالکل نماز جمعہ و جماعت میں شرکت نھیں کرتے تھے ۔ وہ بھی ان نمازوں میں شرکت کرتے تھے اور عمومی طورپر اسے کافی بھی سمجھتے تھے ۔ یھاں تک کہ ایسے حالات میں ایسی نمازوں میں شرکت کرنا نہ صرف یہ کہ قابل قبول بھی بلکہ عظیم ثواب کی حامل تھی۔[29] لیکن ان ثواب و جزا کے اپنے خاص دلائل اور براھین تھے اور اس کا سبب یہ ھرگز نہ تھا کہ وہ عدالت کی شرط کو امام جمعہ و جماعت کے لئے ضروری نھیں سمجھتے تھے۔

حقیقت تو یہ ھے کہ سنیوںکی طرف سے شرط عدالت کو قبول نہ کرنے اور شیعوں کی طرف سے اس شرط کو قبول کرنے میں ان سب سے زیادہ جو پھلے ظاھری طور سے فرق نظر آتا ھے اس سے کھیں گھرا فرق ان کے کلامی و فقھی اور اسی طرح ان کے شرعی و اعتقادی حساسیت کی ساخت میں دخیل ھے۔ اس لئے کہ اس شرط کا قبول نہ کرنا موجودہ صورت کو کسی بھی حال میں قبول کر لینے کے مترادف تھا ۔اگرچہ اس درمیان کچھ دوسرے عوامل بھی موجود رھے ھیں لیکن یہ عامل ان تمام عوامل میں موٴثر ترین اور اھم ترین اور بھت ھی زیادہ فیصلہ کن عامل کی حیثیت رکھتا ھے۔

اگرچہ اھل سنت کی فقھی ا ور کلامی بنا کچھ اس طرح ھے کہ وہ حاکم کو اولواالامر کے مصادیق میں سے جانتی ھے اور اسے واجب الاطاعت سمجھتی ھے[30] آیا طول تاریخ میں اھل سنت نے تمام حکام کی مشروعیت اور ولایت کو اسی علت کی وجہ سے قبول کیا ھے؟ عوام کی درمیانی فکری اور ثقافتی سطح سے بالاتر مباحث کلامی اور فقھی مسائل کھیں زیادہ پیچیدہ تھے اور ھیں ان مباحث سے آشنائی کے ذریعہ ان لوگوں نے حاکموں کے سامنے سر نھیں جھکائے۔ اصولا ایسے مباحث ان کے دین و فھم میں ان کا کوئی مقام نھیں تھا ان کا فھم و ادراک اس سے آسان اور محدودتر تھا کہ وہ اسے اپنے اندر جگہ دے سکے۔

شرطِ عدالت کے انکار کی اھمیت

یا ایک دوسری تعبیرکے مطابق تنھا مشکل یہ نھیںھے کہ اھل سنت کی فقہ و کلام کی فطری اور منطقی بنا کی اقتضا صرف یہ نھیں ھے اور اصولی طورپر ھر دین و مذھب کے پابند لوگوں تقاضا کیا ھے؟ زیادہ اھمیت کا حامل مسئلہ یہ ھے کہ اس وسیع مجموعہ میں سے کون سا حصہ ان کے ذھن و فکر اور ایمان و اعتقاد میں پایا جارھا ھے یعنی عوام لوگوں کا اس مجموعہ سے متعلق ا دراک کیا ھے؟ اور اس کی حدیں کیا ھیں؟ اور ان میں مختلف اجزا کا ایک دوسرے سے رابطہ کیسا ھے؟ اس مرحلہ میں جو چیز پایدار اور موٴثر ھے وہ یھی ا دراک و فھم ھے، یھی چیز ھے جو تاریخی میدان اور معاشرہ میں کردار ادا کرتی ھے۔ اگرچہ یہ دینی شعور و ادراک ھر زمان و مکان میں موجودہ حالات کے تحت بدلتے رھتے ھیں، لیکن مجموعی طور سے تبدیلیوں میں،ایک ثابت عوامل پائے جاتے ھیں جو دین کی استوار بنیادوں اور اصول سے متاٴثر ھوتے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next