حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم



بسمہ تعالی

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آنحضرت کا اسم مبارک محمد ،کنیت ابوالقاسم اور مشہور لقب احمد یا مصطفیٰ ہے، آپ کی عمر ترسٹھ(۶۳) سال تھی ۔

آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول سن ۱ عام الفیل بروز جمعہ صبح صادق کے وقت ہوئی یہ وہ سال تھا جس سال پروردگار عالم نے کعبہ کو منہدم کرنے کی غرض سے آئے ہوئے لشکر کو ابابیل کے ذریعہ پسپا کیا۔

آپ کی وفات ۲۸ صفر ۱۱ ھجری کو ایک یہودی عورت کے زہر کے زیر اثر واقع ہوئی ۔

جب آپ کی عمر مبارک ۲۵ سال تھی تو آپ نے جناب خدیجہ (س) سے شادی کی، اور چالیس سال کی عمر میں ۲۷ رجب سن۴۰ عام الفیل میں مبعوث بہ رسالت ہوئے ،۱۳ سال تک عظیم مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مکہ میں رہے اور اسلام کی تبلیغ کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ کفار قریش اسلام کی ترقی کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہو گئے ہیں تو مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، یہی وہ سال ہے جو تاریخ اسلام کے لئے مبدأ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آپ نے اپنی دس سالہ مدنی زندگی کے دوران اپنی رسالت کو پوری دنیا میں پہنچا دیا ۔

آپ کے والد جناب عبداللہ ابن عبدالمطلب کا شمار عرب کی بزرگ شخصیتوں میں ہوتا ہے،تاریخ شاہد ہے کہ جناب عبداللہ جیسی شخصیت عالم عرب میں کم نظیر ہے ،ابھی رسول اکرم (ص) کی ولادت بھی نہ ہونے پائی تھی کہ شام سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ میں آپ کی وفات واقع ہو گئی اور وہیں دفن کر دئے گئے ،اس دلخراش واقعہ کے بعد آپ کی کفالت کی ذمہ داری جناب عبدالمطلب نے سنبھال لی ،جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے دادا نے ایک دایہ کا انتخاب کیا جس کا نام حلیمہ سعدیہ تھا ،جن کے افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر (ص)ان کی فرزندی میں آ گئے ۔

حلیمہ سعدیہ نے چھہ سال آپ کی پرورش کی اور اس کے بعد آپ کو آپ کی والدہ کے سپرد کر دیا ۔ پھر آپ اپنی والدہ کے ہمراہ مدینہ منورہ اپنے والد کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور واپسی میں آپ کی والدہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں چنانچہ آپ ام ایمن کے ساتھ مکہ واپس تشریف لائے اور اپنے دادا کے دامن میں پناہ لی ۔

ابھی آپ صرف آٹھ برس Ú©Û’ تھے کہ جناب عبدالمطلب Ú©ÛŒ بھی وفات ہو گئی لیکن باپ جیسے شفیق چچا ،جناب ابوطالب اور ماں جیسی Ú†Ú†ÛŒ فاطمہ بنت اسد Ù†Û’ یتیم عبداللہ Ú©Ùˆ اپنے کلیجے سے لگا لیا ۔یہی وجہ ہے کہ اگر چہ رسول اسلام نعمت پدری Ùˆ مادری سے محروم ہو گئے لیکن کبھی آپ Ú©Ùˆ احساس یتیمی نہ ہونے پایا کیوں کہ آپ Ú©Ùˆ جناب عبدالمطلب ،ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد جیسے سرپرست  نصیب ہوئے ۔لیکن ظاہر ہے کہ حضرت Ù†Û’ یتیمی کا داغ بھی دیکھا ہے Û”

چنانچہ قرآن کریم اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

اَلَمْ يَجْدِكَ يَتيماً فآوي وَ وَجَدَكَ ضالاً فَهَدَي. وَ وَجَدَكَ عَائِلاً فَاَغْنَي۱

کیا ہم نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے ،اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا ہے اور تم کو تنگ دست پا کر غنی نہیں بنایا ہے ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next