حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم



یہی وجہ ہے کہ آنحضرت اگر چہ یتیم ،گم گشتہ اور تنگدست تھے لیکن ان چیزوں نے آپ کی شخصیت کو متاثر نہیں کیا کیونکہ خداوند نے آپ کو ابوطالب جیسی شخصیت کے سپرد کیا تھا اور خدیجۃ الکبریٰ جیسی خاتون کی ثروت کے ذریعہ غنی بنایا ،کیوں کہ خدیجہ نے شادی کے وقت ہی سارا مال پیغمبر(ص) کے قدموں میں ڈال دیا تھا ۔

آپ کی والدہ آمنہ خاتون جناب وہب کی دختر، ایک باشرف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور مزید شرافت کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ کو آنحضرت کی ماں بننے کا شرف ملا ہے ۔

پیغمبر اکرم (ص) کی شرافت ،کرامت، نیک سیرتی اور معجزات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے متعلق سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔لیکن اختصار کے مد نظر ہم ان کا ذکر یہاں پر نہیں کرر ہے ہیں ۔ صرف ایک معجزہ کا ذکر جو آپ کی ولادت کے وقت رونما ہوا اور ایک دوسری بات جسے قرآن نے آپ کے سلسے میں ذکر کیا ہے بیان کریں گے ۔اس کے بعد رسول اکرم (ص)کے القاب کی تفسیر بیان کریں گے اور آخر میں خاتمیت کے متعلق گفتگو ہو گی ۔

معجزہ

مؤرخین کا کہنا ہے کہ جس دن آنحضرت کی ولادت ہوئی اس روز دنیا میں کچھ تبدیلیاں اور تغییرات رونما ہوئے جیسے قصر کسریٰ کے کنگورے ٹوٹ گئے اور ان میں شگاف پیداہو گئے ،دریائے ساوہ خشک ہو گیا ،فارس کا آتشکدہ جو مدتوں سے روشن تھا خاموش ہو گیا ،دنیا بھر کے بادشاہ اور سلاطین اس روز حیران و پریشان ہو گئے تھے ،بتوں کا سرنگوں ہوجانا ،جادوگروں کا جادو اس دن بے اثر ہو گیا تھا ،ساری کائنات میں "لا الٰہ الا اللہ" کا شور اور جس وقت آپ پیدا ہوئے ساری کائنات آپ کے نور سے منور ہو گئی اور فرمایا: لا الٰہ الا اللہ اور ساری کائنات نے ان کے ساتھ کہا لا الٰہ الا اللہ ۔۔۔

قرآن اور پیغمبر اسلام

قرآن مجید پیغمبراسلام (ص)کے سلسلے میں فرماتا ہے :

وكذلك جعلناكم امة وسطاً لتكونوا شهداء علي النّاس ويكون الرسول عليكم شهيداً ۲

اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمھارے اعمال کے گواہ رہیں ۔

اس آیت کے دو معنی ہیں :ایک ظاہری معنی جسے تمام افراد سمجھ سکتے ہیں،وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ کو دوسری امتوں کے لئے سرمشق قرار دیا گیا ہے تاکہ دوسری اقوام اس کی پیروی کریں اور پیغمبر اسلام (ص) بھی امت اسلامیہ کے لئے نمونہ عمل ہیں ۔لیکن اس کے ایک دوسرے معنی بھی ھیں جسے ائمہ معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصاً علامہ طباطبائی نے اس آیت کریمہ کے ذیل میں مفصل بحث کی ہے اور ان روایات سے استفادہ کیاہے ۔وہ معنی یہ ہے کہ امت اسلامیہ قیامت کےدن دوسری امتوں کے اعمال کی گواہ ہے اور چونکہ ساری امت والے اس عمل گواہی کی لیاقت نہیں رکھتے لہذا یہ امر ائمہ علیہم السلام سے مخصوص ہے ،سنی اور شیعہ دونوں کی روایات میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next