اسلام کانظام حج



لا اقسم بھذا البلد و انت حلّ بھذا البلد (۲۰)

جس طرح سے زمانہ اور حساس و تاریخی زمانوں مثلاً وحی و رسالت کے زمانوں کی قسم قرآن میں ذکر ھوئی” و العصر انّ الانسان لفی خسرٍ“(۲۱) یوں ھی اھم تاریخی سر زمینوں کی قسم بھی قرآن میں آئی ھے مثلاً مذکورہ بالا آیت جس میں سرزمین مکہ اور بلد امین کو قسم کے ساتھ یادکیا گیا ھے۔ قرآن کی قسمیں انسانی قسموںکے مانند نھیں ھیں، کیونکہ انسانی قسمیں شھادت اور دلیل کے مقابل ھواکرتی ھیں لیکن قرآن کی قسم خود شھادت و دلیل میں ھے یعنی وہ انسان کو خود دلیل کی ھدایت کرتا ھے ۔ اسی وجہ سے اس نے اس زمین کی قسم کو ایک قید کے ساتھ رکھا ھے اور وہ یہ کہ پیغمبر خدا (ص) اس سرزمین میں ھو،یعنی خداوند عالم اس سرزمین کو قسم سے یاد کرتا ھے اور اس مکہ کی قسم کھاتا ھے جس میں پیغمبر اسلام موجود ھوں۔ ورنہ مکہ پیغمبر (ص) کے بغیر اور کعبہ الٰھی و آسمانی رھبر کے بغیر ایک معمولی زمین اور ایک عام گھر ھے ، جو رفتہ رفتہمکمل طور پر ایک بتکدہ،بت پرستی کا مرکز، بت پرسروں کا اسیر اور ھوس پرستوں کے جنگل میں گرفتارھوجائے گا یھاں تک کہ کعبہ کا کلید دار ” ابو غیتان“ کعبہ کی تولیت کی بگڑی طائف میں شراب نو شی کی شب باشی میں دومشک شراب کے عوض بیچ دے اور کعبہ طائف کے شرابیوں کے درمیان شراب و کباب کے عوض خریدا اور بیچاجائے۔

اعمال حج کا اختتام اور کعبہ سے وداع

جس طرح کائنات ھستی کا مبداٴ و خالق خداوندا عالم تھا، اسے تمام کرنے والی اور اختتام تک پھنچانے والی بھی خدا کی ذات ھے ” ھو الاوّل و الآخر“ (۲۲) یوں ھی کائنات کی تمام موجودات کا آغاز بھی خدا سے ھے اور ان تمام چیزوں کا انجام اور بازگشت بھی اسی کیجانب ھے ” انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون“ (۲۳) اسی بنا پر ضروری ھے کہ ھر کام جو ایک موحد و خدا پرست انسان انجام دیتا ہ اس کی ابتدا میں خدا کانام اور اس کی انتھا و انجام میں بھی خدا کی یاد اور اس کا ذکر رھے۔ وہ کوئی بھی کام خدا کے نام کے بغیر شروع نہ کرے اور اس کا عمل بھی خدا کی یاد سے الگ نہ ھو۔ عملی زندگی میں اس کے توحید ی اعتقاد اور شھود خدا وند کی طرف اس کی توجہ کا پتہ دیتا ھے۔ اسی لئے قرآن کریم ھمیں حکم دیتا ھے:

” Ú©Ú¾Ùˆ! کہ اے پاکنے والے مجھے جس منزل میں داخل فرما صداقت Ùˆ خوبی Ú©Û’ ساتھ داخل فرما اور جھاں سے نکال سچائی Ú©Û’ ساتھ اور بھترین انداز میں نکال اور اپنی جانب سے میرے لئے ایک قوی Ùˆ طاقتور مدد گار قرار دے“ (Û²Û´) یعنی دنیا میں میرا آنا اور یھاں سے جانا، یوں Ú¾ÛŒ عالم برزخ میں داخل ھونا اور وھاں سے Ù†Ú©Ù„ کر قیامت میں پھنچنا نیز ھر کام میں داخل ھونا اور اس سے عھدہ برآھونا سچائی اور بھتری Ú©ÛŒ بنیاد پر Ú¾ÙˆÛ” کعبہ Ú©ÛŒ زیارت اور حج بھی اسی قرآنی اصل Ùˆ قانونکی بنیاد پر Ú¾Û’ØŒ کیونکہ اس میں وارد ھونا توحید Ú©ÛŒ بنیاد پر ØŒ صدق نیت Ú©Û’ ساتھ احرام باند کر اور لبیک کھہ کر نیز حج کا خاتمہ اور کعبہ سے وداع بھی توحید اور سچے ارادے Ú©Û’ ساتھ ھونا ضروری اور لازمی Ú¾Û’Û” اس لئے حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل Ú¾Û’ کہ آپ  کعبہ سے وداع Ú©Û’ وقت فرماتے تھے:

”اللّٰھمّ انّی انقلب علی لا الٰہ الّا انت“

پروردگارا میں توحید کی بنیاد پر نیز ھر طرح کے طاغوت اور جھوٹے خدا کی نفی کرتے ھوئے حج اور کعبہ کی زیارت سے واپس ھورھا ھوں“۔

جب حاجی اعمال حج بجالانے Ú©Û’ بعد ھر آلودگی Ùˆ کثافت سے پاک ھوجاتا Ú¾Û’ تو اس وقت تک ایک نورانی انسان رھے گا جب تک گناھوں سے آلودہ نہ Ú¾ÙˆÛ” جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام  سے روایت Ú¾Û’:

”الحاج لا یزال علیہ نور الحج ما لم یلم بذنب“  (Û²Ûµ)

اگر حج کرنے والے نے یہ نورانیت اپنے اندر دیکھی تو سمجھ لے کہ اس کا حج مقبول ھے، ورنہ وہ حج مردود ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next