اسلام کانظام حج



”و اذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقتل منّا انّک انت السمیع العلیم“ ( ۴)

”جس وقت یہ دو عظیم شخصیتیں یعنی جناب ابراھیم و اسماعیل علیھماالسلام کعبہ کی تعمیر کررھی تھیں اور اس کے پایوں کو بلند کررھی تھیں تو ان کے پاک باطن اور صاف ضمیر سے یہ حقیقت یوںمجسم ھو رھی تھی کہ خداوندا اسے ھماری طرف سے قبول فرما یقینا تو سننے اور جاننے والا ھے۔

بنابر ایں کعبہ کی تعمیر اور اس کے معماروں کا مقصد رضائے خداوند عالم کے سوا کچھ اور نھیں تھا اور چونکہ نیت عمل کی روح ھے نیز اس عمل میں خدا کے سوا کوئی اور نیت نھیں تھی لھذا کعبہ کی اھمیت اس جھت سے بھی واضح ھے۔

کعبہ آزادی کا محور اورآزادی پسندوں کے طواف کی جگہ

کعبہ جس طرح سے انسانوں کی عبادت کی سب سے پرانی اور قدیم ترین جگہ ھے یوں ھی وہ بیت عتیق اور انسانی ملکیت سے آزاد ھے، وہ ایسا گھر ھے جو کسی کی ملکیت نھیں بنا اور کسی بھی انسان کی مالکیت میں قرار نھیں پایا۔ لھذا کعبہ ایسا گھر جو تاریخ میں ھمیشہ آزاد و عتیق رھااور ایک آزاد گھر کے گرد طواف حریت و آزادی کا سبق دیتا ھے۔ وھی لوگ اس کی زیارت سے حقیقی طور پر مشرف ھوتے ھیں جو باطنی حرص و آز کے غلام اور کسی اور کے بندے نہ ھوں کیونکہ آزادگی کے مدار ومحور پر غلامی کے ساتھ طواف سازگار نھیں ھے۔ اسی جھت سے قرآن کریم کعبہ کو بیت عتیق کے نام سے یاد کرتا ھے:

”و لیطّوّفوا بالبیت العتیق“ (۵)

” ثمّ محلھا الیٰ البیت العتیق“( ۶)

کعبہ طھارت کا محور اور پاکیزہ لوگوں کے طواف کی جگہ

جس طرح کعبہ کی تعمیر وحی کے حکم سے ھوئی تھی، یوں ھی اسے ھر شرک و آلودگی سے پاک کرنے اور ھر طرح کے عناد و تمرد کے غبار سے صاف رکھنے کا حکم بھی وحی الٰھی کے حکم سے تھا، تا کہ وہ گھر آلودگی و عصیان سے پاک رھے اور شرک و عناد سے منزہ متقی پرھیز گار افراد اس کے حریم میں آسکیں۔

”و طھر بیتی للطائفین و القائمین و الرّکع السجود“ (۷)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next