اسلام کانظام حج



لھذا اگر حج میں تقویٰ کی رعایت نہ کی جائے تو نہ صرف وہ کامل طور پر قبول نہ ھوگا بلکہ سرے سے قبول ھی نھیں ھوگا اور اگر حج و زیارت میں تقویٰ پیش نظر رھے لیکن دوسرے اعمال میں اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس غیر متقی کا حج و زیارت قبولیت کے کمال تک نھیں پھنچ سکتا ۔ چونکہ کعبہ کی بنیاد رکھنے والے (جناب ابراھیم و اسماعیل علیھماالسلام) نے خالص تقویٰ و پرھیز گاری کے ساتھ اسے بنایا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ دعا کی ”ربّنا تقبّل منّا“ ( پالنے والے ھماری طرف سے اسے قبول کر) اس وجہ سے چونکہ کعبہ کا مل قبولیت کے ساتھ بیانا گیا ھے۔ لھذا غیر متقی شخص کا عمل بانی کعبہ جناب ابراھیم علیہ السلام کے مقصد کے مطابق نہ ھوگا۔

حج و طواف ، شرک اور مشرکوں سے اظھار پرھیزکاری کا بھتیرن موقع

اگر چہ ھر عبادت شرک سے دوری اورطاغوت سے اظھار نفرت Ú¾Û’ اور حج Ùˆ طواف کعبہ بھی جو بمنزلہ نماز Ú¾Û’ یا نماز اس Ú©Û’ ھمراہ Ú¾Û’ ” الطواف بالبیت فانّ فیہ صلوة “۔(Û±Û³)  لھذا یہ بھی طاغوت سے دوری اور شرک سے نفرت Ú©ÛŒ حکایت کرتا Ú¾Û’Û” لیکن چونکہ یہ ایک ایسی مخصوص عبادت Ú¾Û’ جو سیاست Ú©Û’ ھمراہ Ú¾Û’ اور دنیا Ú©Û’ گوناگوں انسانوں Ú©Û’ مختلف طبقوں Ú©Û’ جمع ھونے کا مناسب موقع Ú¾Û’ ØŒ تاکہ دوسری عبادتوں Ú©Û’ مانند اس عبادت Ú©ÛŒ روح اس عظیم اجتماع میں بخوبی جلوہ گر Ú¾Ùˆ اور اس خصوصی عبادت Ú©Û’ آثار Ùˆ نتائج پوری طور سے ظاھرھوں اس کیلئے پیغمبر اسلام(ص) Ù†Û’ وحی الٰھی Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے اسلامی حکومت Ú©Û’ خطیب Ùˆ معلن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام Ú©Ùˆ مشرکوں سے اظھار برائت Ú©Û’ اعلان Ú©Û’ لئے معین فرمایا تا کہ پوری قاطعیت Ú©Û’ ساتھ توحید Ú©ÛŒ حد، شرک Ùˆ الحاد سے جدا ھوجائے اور مسلمانوں کا منظم گروہ کفار Ú©ÛŒ صف سے علیٰحدہ ھوجائے۔ اسی جھت سے حج کا سیاسی ۔عبادی چھرہ بھی واضح ھوجائے اور حاجی ØŒ اسلامی قرار داد کوسن کر ( جس میں شرک سے بیزاری کا اظھار اور مشرکین سے قطع تعلق کا Ø­Ú©Ù… Ú¾Û’) توحید Ú©ÛŒ سوغات اپنے ھمراہ Ù„Û’ جائیں۔

 Ø­Ø¬ الٰھی: انسانی قدروں Ú©ÛŒ تعیین کا بھترین عامل

زمانہٴ اھل بیت کی رسم یہ تھی کہ لوگ حج سے فارغ ھونے کے بعد ”منیٰ“ میں جمع ھوتے تھے اور اپنے قومی و نسلی خصوصیات و افتخارات بیان کرتے تھے۔ عھد جاھلی کی قدروں کی بنیاد پر نظم و نثر کے قالب میں اپنے بزرگوں کا ذکر کرتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے ، لیکن اسلام میں حج کے نظام نے ان جاھلانہ باتوں کو ختم کرکے الٰھی قدروں کا نظام بیان کیا اور لوگوں کو اس کی طرف ھدایت کی۔

”پس جب تم عرفات سے چل پڑو تو مشعر الحرام کے نزدیک خدا کا ذکر کرو اور اس کا تذکرہ کرو کہ اس نے کس طرح تمھاری ھدایت کی اگر چہ تم اس سے پھلے گمراھوں میں سے تھے۔ پھر جھاں سے لوگ چل پڑیں تم بھی چل پڑو اور خدا سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک خدا بڑا بخشنے ولا اور مھربان ھے۔ پھر جب حج کے اعمال بجالا چکو تو اس طرح خدا کا ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کرتے ھو بلکہ اس سے بھی بڑہ کر خدا کو یاد کرو۔ پس بعض لوگ ایسے ھیں جو کھتے ھیں، اے پالنے والے ھمیں دنیا میں جو دینا ھے دے دے، پھر آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نھیں ھے اور بعض ایسے ھیں جو کھتے ھیں، خداوندا ھمیں دنیا میں نعمت اور آخرت میں اجر و ثواب عطا فرما اور دوزخ کی آگ سے بچا“(۱۴)

ان آیات میں حاجیوں اور منیٰ کے مھمانون کی باھم گفتگو کا محور خدا کی نعمت ، اس کی ھدایت ، ما ضی کی گمراھی سے نجات اور ھدایت کے حصول پر خدا کے ذکر کو قرار دیاگیا ھے الله کے نام اور اس کی یاد کو اپنے بزرگوں کے نام اور ان کی یاد سے زیادہ شدید قرار دیا گیا ھے۔ خدا کی یاد جس طرح کثرت و فراوانی کے ساتھ متصف کی گئی۔

یوںھی اسے شدت کے ساتھ یاد بھی کیا گیا ھے لھذا خداوند عالم نے فرمایا کہ جس طرح تم اپنے بزرگوں کی یاد میں مشغول ھو یوں ھی بلکہ اس سے زیادہ اپنے خدا کو یاد کرو۔

حرم اور سرزمین حج میں احرام کے بغیر داخل ھونا جائز نھیں

جس طرح دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ ، سچے موحدوں کا مرکز طواف ، وہ تنھا گھر جس کی طرف رخ کرنا عبادت میں ضروری ھے اور واجبی عبادتوں میں جس کی طرف سے منہ پھیرنا جائز نھیں مکہ ھی میں ھے جسے کعبہ کھتے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next