اسلام کانظام حج



زمانہٴ جاھلیت کا تلبیہ جو اس صورت سے ادا ھوتا تھا:

”لبیک لبیک لا شریک لک الّا ھو لک“

یعنی تیراکوئی شریک نھیں ھے مگر وہ شریک جو تیرے لئے اور تیرا ھے۔

اسے محض توحید اور خالص وحدانیت کی شکل میں جلوہ گر کیا۔ چنانچہ اسلام میں تلبیہ کھتے وقت ھر طرح کے شریک کی نفی کرتے ھوئے یوں کھا جاتا ھے:

”لبیک لبیک لا شریک لک لبیک“

یعنی خداوند تیرا ھر گز کوئی شریک نھیں ھے اور نہ ھوگا۔

حج، تقویٰ کا بھترین توشہ اور انسانی کمال کی راہ کا بھترین زاد سفر ھے۔ قربانی جو حج کے اعمال کا ایک حصہ شمار ھوتی ھے اور زمانہٴ جاھلیت میں بھی طویل عرصہ سے ھوتی آرھی ھے، شرک ،کفر، خرافات اور غلط خیالات کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ ذبح کے بعد جانور کا خون کعبہ کی دیوار پر ملا جاتا تھا اور گوشت وھاں لٹکایا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم یہ تقویٰ آمیز رھنمائی کرتا ھے:

”لن ینال الله لحومھاو لا دمائھا Ùˆ لٰکن ینالہ التقویٰ منکم“    (Û±Û²)

یعنی قربانی کا گوشت اور خون خدا تک نھیں پھنچتا، بلکہ اس عمل کی پاکیزہ روح یعنی گناہ اور گناہ گاروں سے دوری، بدکاروں سے پرھیز، عصیان سے خود کو روکنا، عاصی و ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا، طغیان سے اجتناب اور طاغوت کے خلاف جنگ جیسی چیزیں خداوند عالم تک پھنچیں گی۔

بھر حال کعبہ کا حج اور اس کی زیارت، تقویٰ و پرھیز گاری کی محکم و مضبوط اساس نیز ظالم اور ظلموں سے دوری کی بنیاد ھے اور اگر حج و زیارت ایسی نہ ھو تو نہ کعبہ کا حق ادا ھوا ھے، نہ حج کا فریضہ انجام پایا، نہ کعبہ کی زیارت ھوئی اور نہ قرآن کی ملکوتیآواز ” و اذن فی النّاس بالحج“ کا جواب دیا گیاھے، کیونکہ ھر عمل کی قبولیت کی شرط میں تقویٰ و پریھز گاری ھے اور ھر عمل کی کامل طور پر قبول ھونے کی شرط یہ ھے کہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں ھر جھت سے تقویٰ و پرھیز گاری کے ساتھ عمل کیا جائے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next