اسلام کانظام حج



اور حجر اسود کو اس طریقہ سے اس کے نصب کئے جانے کی جگہ تک بلند کیا گیا کہ قبائلی خصوصیات جنھیں قومی تعصبات اور دشمنی کھا جاتاھے، اتحاد، برابری اور برادری میں تبدیل ھوگئی جو ایمانی محبت کا نمونہ ھے، بالکل یوں ھی جیسے گناہ،نیکیوں میں تبدیل ھوجاتے ھیں۔ اسی وجہ سے ھمیں اس الٰھی گھر سے اتحاد و یکجھتی کا سبق ملتا ھے۔

کعبہ تقویٰ و پرھیز گاری کی بنیاد

تمام انبیائے الٰھی اس لئے مبعوث ھوئے ھیں کہ توحید کی بلند چوٹی تک شرک کا پرندہ پر نہ مارسکے اور وحدانیت کے مقدس حریم تک شیطان رسائی نہ پاسکے۔

” و لقد بعثنا فی کل امة رسولاً ان اعبدوا الله اجتنبوا الطاغوت“ (۱۰)

”اور ھم نے ھر امت میں ایک رسول ضرور بھیجا ھے کہ ( وہ لوگوں سے کھے) الله کی عبادت کرواور طاغوت (بتوں) کی عبادت سے پرھیز کرو“۔

قرآن کریم کعبہ،اس کی زیارت اور حج کو تقویٰ کا محور ا ور طا غوت اور طغیان سے پرھیز کی اساس جانتا ھے۔ خدا وند عالم نے وحی کے ذریعہ جناب ابراھیم علیہ السلام کو اس طرح حج کے مناسک اور اعمال سکھائے:

”وارنا مناسکنا“یک(۱۱)

جنکا ثمرہ صرف توحید تھا۔ یھی توحیدی اعمال خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے اپنی راہ پر چلنے والوں( مسلمانوں )کو تعلیم دئیے اور فرمایا:

”خذوا عنّی مناسککم “ مجھ سے اپنے اعمال و مناسک سیکھو۔

نیز زمانہٴ جاھلیت کے تلبیہ ( لبیک کھنے) کہ جو شرک آمیز تھا اور خانہ توحید جو بتکدہ کی صورت اختیار کر چکا تھا، اس کے طواف کو پاکیزگی عطا کی۔ احرام اور لبیک کھنے کو شرک کی آمیزش سے نجات دی اور کعبہ کو بھی بتوں سے پاک کیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next