ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

خلاصہ

وجوہ مشترکہ حاصل کرنے کے لۓ ادیان کے درمیان گفتگو کی بحث زمانہ قدیم سے جاری ہے زیر نظر مقالے میں اس بحث کو اسلام کی نقطہ نگاہ سے دیکھا گیا ہے سب سے پہلے اختصار سے گفتگوی ادیان کے معنی اور تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے بعد اسلام کی نظر میں گفتگو کی ضرورت پر توجہ کی گئي ہے اور قرآنی آیات کے مطابق اجمالا اس بحث کے فوائد کا ذکر کیا گیا ہے آخر میں چار شرطوں کا ذکر کیا گيا ہے جس کی پابندی کرنا گفتگو کے طرفداروں کے لۓ ضروری ہے ۔

مقدمہ :

گفتگو کی تاریخ کاآغاز انسانی تاریخ سے ہوتا ہے 1 زمانہ قدیم سے ادیان کے درمیان گفتگو کا مقصد اپنے عقائدکو صحیح ثابت کرنا اور مخالفین کو شکست دینا تھا لیکن نۓ نظریات اور مشترکہ اقدار کے حصول کے لۓ گفتگو اور بحث جسے ان دنوں کافی پذیرائي حاصل ہوئي ہے 2اور ادیان نے اس پر کافی توجہ دینی شروع کی ہے اس کے بارے میں نہیں معلوم یہ عمل کب سے شروع ہوا ہے بڑے ادیان جیسے عیسائيت اور یہودیت کی تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہےکہ یہ ادیان صرف خود کو حق اور دوسرے کو باطل قراردیتے تھے قرآن ان کی اس روش کو اس طرح بیان کرتا ہے "قالت الیھود لیست النصاری علی شیئ وقالت النصاری لیست الیھود علی شیئ 4 بقرہ 113 یہود کہتے ہیں کہ کہ نصاری کا مذھب کچھ ٹھیک نہیں اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود کا مذھب کچھ ٹھیک نہیں ۔

ظہور اسلام اور اسکی تیز ترقی اور اس کے عالمی مذھب کے طور پر سامنے آنے کے بعداس طرح کے طرزتفکر اورغیر اصولی روش کوختم کرنے اور دینی فکر کو رائج کرنے میں مسلمانوں کو اہم کامیابیاں حاصل ہوئيں اور اسلام نے حصول مشترکات کے لۓ دوسرے مذاھب کے ساتھ گفتگو اور بحث و مباحثہ کی شروعات کی اور اس روش کو دینی فکر پیش کرنے کے لے مناسب اور آزاد و بلاجبر روش قراردیا ۔

اسلام نے گفتگو اور منطقی بحث پر بہت تاکید کی ہے جبکہ دیگر ادیان آسمانی میں یا ان کی مقدس کتب ،سیرت اور سنت علماء دین میں ایسی کوئي بات دیکھنے کو نہیں ملتی 5 گرچہ بعض ادیان جیسے عیسائيت کو تبلیغ اور نۓ پیرووں کو خود میں شامل کرنے کا دعوی تھا لیکن اس مذھب نے دوسرے مذاھب کو کبھی یہ حق نہیں دیا ۔

قرآن وگفتگو ۔

قرآن میں موافق و مخالف کے ساتھ گفتگو کرنے کو ایک پسندیدہ روش قراردیا گیا ہے اور اس کی بہت سی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں ،قرآن کے مطابق سب سے پہلا گفتگو کرنے والا خود خداوند متعال ہے ،اللہ نے مسئلہ خلقت آدم ‏(ع) میں ملائکہ سے گفتگو کی ہے اور ملائکہ نے بھی اپنے نظریات بیان کۓ ہیں خدا نے اپنا مدعا پیش کرنے کے لۓ حضرت آدم کو ان کے سامنے پیش کیا تاکہ حضرت آدم ملائکہ کو اپنی صلاحیتوں سے آشنا کرسکیں اس طرح خدا نے خلقت آدم کے بارے میں ملائکہ کے اندیشوں کو غلط قراردیکر ان کی مکمل وضاحت فرمادی 6 ،خدا نے شیطان سے بھی گفتگو کی جس نے اس کے حکم سے سرپیچي اور بغاوت کی تھی اور اس کو قیامت تک مہلت دی 7 انبیاء نے بھی اپنے مخالفین سے گفتگو کی سب سے زیادہ حضرت نوح (ع) نے اپنی قوم سے گفتگو کی جن کی عمر ساڑھے نو سوسال بتائي جاتی ہے 8 اس بارے میں قرآن میں آیا ہےکہ یانوح قد جادلتنا فاکثرت جدالنا 9 اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ہے ،حضرت نوح ع نے اپنے بیٹے کے بارے میں خداسے گفتگوکی 10 حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے بحث و گفتگو کرنے کے علاوہ قوم لوط کو عذاب سے معاف کرانے کےلۓ خداسے گفتگو کی 11 اسی طرح دیگر انبیاء الھی جیسے حضرت صالح ،لوط،موسی ،اور عیسی علیھم السلام ۔۔۔۔۔نے اپنی قوموں سے بحث وگفتگو کی ہے ۔

رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے بھی مخالفین و موافقین سے بحث کی ہے ان بحثوں کا ایک اھم حصہ مرحوم شیخ طوسی نے اپنی کتاب "الاحتجاج" میں ذکر کیا ہے انہوں نے کتاب کے مقدمے میں جدال اور اسکی اقسام کی تفصیل بیان کی ہےاوررسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدال احسن کے کہ جن کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے نمونے ذکر کۓ ہیں اس کے علاوہ معصومین علیھم السلام کی بحثوں کوجو روایات میں وارد ہوئي ہیں بالترتیب ذکر کیا ہے ۔
بہرحال قرآن میں ایسی آیات ہیں جو بحث وگفتگو کو ضروری قراردیتی ہیں ان میں بعض آيات حسب ذیل ہیں ۔
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنہ و جادلھم بالتی ھی احسن ۔حکمت و پسندیدہ وعظ ونصیحت کے ذریعے اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دو اور اچھے اور بہتر انداز میں ان سے بحث کرو،اس آیۃ شریفہ میں صراحتا بیان کیا جارہا ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری ہےکہ دین خدا کی طرف دعوت دینے اور دین کا دفاع کرنے کے لۓ حکمت و موعظہ حسنہ سے کام لیں 13ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ "ولاتجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن یعنی اھل کتاب کے ساتھہ صرف بہتر طریقے سے گفتگو اور جدال کریں 14 ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next