ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

ج:انسانوں کے درمیان اختلافات مسلم حقیقت ؛انسان ایک نوع ہونے کے ساتھہ ساتھہ اختلافات کا بھی حامل ہے ہر انسان کو ایک جیسا نہیں سمجھاجاسکتا افراد بشر میں ظاہری و مادی اور معنوی و باطنی امور میں اختلافات پاے جاتے ہیں ۔

1ظاہری اختلاف :

انسان جنسیت ،نسل رنگ و علاقے کے لحاظ سے ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے البتہ یہ امور ایک دوسرےپر برتری اورامتیاز کے موجب نہیں ہوسکتے اور نہ ان سے انسان کی ماھیت میں کوئي فرق آتاہے ۔

قرآن نے ان اختلافات کو قبول کیا ہے اور تکوینی و طبیعی امور قراردیا ہے ارشاد ہوتاہے "یاایھاالناس انا خلقناکم من ذکرو انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقیکم 52 اے لوگو ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیداکیاہے اور گروہوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکولیکن خدا کی نظر مین سب سے عزیز وہی ہے جوسب سے زیادہ متقی و پرہیزکار ہے ۔

2 معنوی و باطنی اختلاف

معنوی اختلاف میں متعدد امور دخیل ہوسکتے ہیں جیسے صلاحیتوں کا مختلف ہونا ،ایمانی درجات کا مختلف ہونا وغیرہ ۔

صلاحیتوں کے مختلف ہونے کاسبب ذاتی ہوسکتاہے یعنی بعض افراد کی صلاحیتیں دوسروں سے کہیں بہتر ہوسکتی ہیں یا ممکن ہے کوئي اور سبب ہو جیسے آج کی دنیا میں پیداہونا کیونکہ آج کی دنیا کی ترقی و پیشرفت ماضی کے انسان کے لۓ قابل درک نہیں تھی یہی مسئلہ بعض دینی معارف کے سمجھنے میں بھی صادق آتاہے ،معصومین علیھم السلام سے مروی ہے کہ آخری زمانے میں یہ ممکن ہوسکے گا کہ لوگ سورہ توحید اور سورہ حدید کی ابتدائي آیات کو بھرپور طرح سے سمجھہ لیں گے بہر صورت اس طرح کے اختلافات گرچہ موجود ہیں لیکن دین نے تعلیمات کا ایک کم سے کم نصاب سب کے لۓ معین کیا ہے جس کا فہم و ادراک سب کے لۓ لازمی ہے اور ان اختلافات کو آزمائيش و حصول کمالات کا ذریعہ قراردیا ہے ۔

سورہ مائدہ کی 48 وین آیت میں ارشاد ہوتاہے " ما وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ فاحکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواءھم عماجاءک من الحق لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا ولوشاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلوکم فی اتیکم فاستبقوا لخیرات "اے رسول ہم نے تم پر بھی برحق کتاب نازل کی کہ جو کتاب اسکے پہلے سے اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اسکی نگہبان بھی ہے تو جو کچہ تم پر خدا نے نازل کیا ہے اسی کے مطابق تم بھی حکم کرو اور جو بات خداکی طرف سے آچکی ہے اس سے کتراکے ان لوگوں کی خواہش نفسانی کی پیروی نہ کرو اور ہم نے تم میں سے ہرایک کے واسطے (حسب مصلحت وقت ) ایک ایک شریعت اورخاص طریقہ مقررکردیا ہے اور اگرخدا چاھتا تم سب کے سب کو ایک ہی شریعت کی امت بنادیتا مگر (مختلف شریعتوں سے ) خداکا مقصود یہ تھا کہ جو کچہ تمہیں دیا ہے اس میں تمہارا امتحان لے بس تم نیکیوں میں لپک کرآگے بڑہ جاؤ۔

اس آيۃ مبارکہ میں چند نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے ۔

1 شریعت ودین کے معنی راہ کے ہیں تاہم ظاہرقرآن سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ شریعت کے معنی اخص اور دین سے کم ہیں کیونکہ انبیاء کوگرچہ اصحاب شرایع مانتا ہے لیکن تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے جو اسلام ہے 53 ان الدین عنداللہ الاسلام54 خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ،یا ماکان ابراھیم یھودیا و لانصرانیا ولکن کان حنیفامسلما 55ابراھیم نہ تو یہودی تھے اورنہ نصرانی بلکہ نرے کھرے حق پرست (مسلم، فرمانبرداربندے ) تھے ۔

2 خدانے اپنے بندوں کے لۓ صرف ایک دین یعنی دین اسلام معین فرمایا ہے اور اسی پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس ھدف تک پہنچنے کے لۓ اسے مختلف راہیں دکھائي ہیں اور انسانون کی مختلف صلاحیتوں کے مطابق ان کے لۓ مختلف آداب وسنن مقررفرمائے جنہیں ہم مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کی شریعتوں سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ خدا کسی شریعت میں کسی حکم کی مصلحت کے منقضی(ختم) ہونے اور نئي مصلحت کے وجود میں آنے سے بعض احکام کو منسوخ فرمادیتاہے ۔

3:شرایع میں اختلافات زمانے کے گذرنے ،انسان کی صلاحیتوں میں پیشرفت وترقی کی بناپربھی وجود میں آتےہیں اور خدا کی طرف سے معین کۓ گۓ فرائض و احکام شریعت انسان کے لۓ زندگی کے مختلف موقعو‍ں پرامتحان کے علاوہ کچہ نہیں ہیں بعبارت دیگر خدانے ہرامت کے لۓ الگ شریعت و راستہ قراردیاہے اور اگر خدا چاھتا تو تمام قوموں کو ایک امت میں شامل کردیتا اور اس کے لۓ ایک شریعت اورایک طریقہ بنادیتا لیکن خدانے متعدد شرایع مقررفرماۓ تاکہ تمہیں گوناگون نعمتیں عطاکرکے تمہارا امتحان لے یہاں نعمتوں کا مختلف ہونا امتحان کے مختلف ہونے کا مستلزم ہے اور یہ امتحان فرائض و احکام شرعی سے عبارت ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next