ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

اس آیت میں تمام مومنین سے خطاب کیا گیا ہے ۔

سورہ آل عمران کی آیت چونسٹھہ میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ اھل کتاب سے گفتگو کريں اور بحث کا اصلی محور بھی معین کردیاگیا ہے ارشاد ہوتا ہے قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بینا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون"
اے رسول تم اھل کتاب سے کہہ دو کہ تم ایسی ٹھکانے کی بات پرتو آؤکہ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیزکو اس کا شریک قرارنہ دیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئي کسی کو اپنا پروردگارنہ بناے پھر اگر اس سے بھی منہ موڑیں تو کہہ دوکہ تم گواہ رہنا کہ ہم خداکے فرمانبردارہیں ۔

اس آيت میں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے ۔

1 قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیناو بینکم آیت کے اس حصے میں خدا صریحا حکم دیے رہا ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اھل کتاب کے ساتھہ باب گفتگو کھولیں اور گفتگو کا اصل محور توحید ہو جوکہ تمام انبیاء کی تعلیمات میں سرفہرست ہے 15 ۔
2 خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بحث سے گفتگو کا آغازنہ کریں بلکہ غیر خدا کی پرستش نہ کرنے سے بحث شروع کی جاۓ اس آيت میں نفی شریک خدا کی بات کی گئي ہے نہ کہ اثبات وجود خدا کی کیونکہ قرآن کریم کی نگاہ میں اثبات وجود خدا اور اس کاحق ہونا فطری امر ہے اور بنیادی طور سے قرآن کی نظر میں انسان(کچہ شرپسند معاندیں کے علاوہ ) خدا کی پرستش کے سلسلے میں شک وشبہ کا شکار نہیں ہوتے یہانتک کہ جب بت پرستوں کی بات ہوتی ہے انہیں بھی خدا شناس بتاتا ہے وما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی17 ( بت پرستوں کے حوالے سے بیان ہورہا ہےکہ )ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے مگریہ کہ وہ ہمیں خدا سے قریب کرتے ہیں ،ہمیشہ مشکل یہ رہی ہےکہ انسان شرک کوپہچانے میں ناکام رہا ہے انسان گرچہ شرک میں گرفتار ہوتارہا ہےلیکن اس سے غافل رہا ہے قرآن کے مطابق مایومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون 18۔ وہ خدا پر ایمان تو نہیں لاتے مگر شرک کۓ جاتے ہیں ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس بارے میں کہ بنوامیہ کس طرح اسلام کے نام پر عوام پر حکومت کرنے میں کامیاب رہے فرمایا ہےکہ " بنو امیہ نے عوام کے لۓ تعلیم ایمان پر پابندی نہیں لگائی تھی بلکہ تعلیم شرک پر پابندی لگادی تھی کیونکہ اگرعوام کو شرک پر مجبور کرتے تو وہ ہرگزاسے قبول نہ کرتے 19 ۔

علامہ مجلسی اس حدیث کے ذیل میں کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی مراد یہ ہے کہ بنی امیہ ان چیزوں سے عوام کو آکاہ نہیں کرتے تھے جن سے انسان اسلام سے خارج ہوجاتا ہے کیونکہ عوام حقائق کوسمجھہ لیتے تو ان کی اور ان جیسوں کی ہرگز پیروی نہ کرتے 20 ۔

3 بحث نفی پرستش غیر خدا میں دو بنیادی نکتے پوشیدہ ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنا لازمی ہے ۔

الف:خداکا کوئي شریک قرارنہ دیا جاۓ (ایسا شرک جو تثیلث،یا خداکے لۓ بیٹا قراردینا ،وغیرہ )کیونکہ الوھیت ایسا مقام ہے کہ ہرشیئي ہرجہت سے اسی میں اپنی پناہ تلاش کرتی ہے ،اس کے بارے میں حیران ہے اورذات الوھیت ہی تمام موجودات کے کمالات کا باعث ہے لھذا لازم ہےکہ انسان خدا کی عبادت کرے اورچونکہ وہ واحد معبود ہے اس کا کوئي شریک نہیں ہوسکتا ۔

ب:ولایتخذبعضنا بعضا اربابا،آیت کایہ ٹکڑا اھل کتاب کی روش کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اتخذو احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم 21 ان لوگوں نے تو خداکو چھوڑکراپنے عالموں ،اپنے زاہدوں اور مریم کے بیٹے مسیح (ع) کواپنا پروردگار بناڈالا ہے،کیونکہ تمام انسان اپنے تمام ترامتیازات کے باوجود حقیقت واحدہ یعنی حقیقت انسانی سے تعلق رکھتے ہیں یہ ہرگزصحیح نہیں ہےکہ بعض انسان دوسروں پر اپنی ہواے نفسانی مسلط کریں اسی طرح بعض انسانوں کا کسی ایک انسان یا انسانوں کے گروہ کے سامنے سرجھکانا اس طرح سے کہ خاضع انسان برابری کے حقوق سے محروم ہوجاۓ اور فرد مطاع کے تسلط و تحکم کی وجہ سے اسے "رب"یا پروردگارمان لے اور تمام امور میں اس کی اطاعت کرے یہ سارے امور فطرت وانسانیت کی نفی کرنے والے ہیں ۔

4 جیسا کہ آپ نے دیکھا اس بحث میں اصول کلی اور امور فطری سے جو کہ تمام ادیان کے درمیان مشترک ہیں گفتگو کی جارہی ہے ان آیات میں اسلام کی طرف (دین خاص )نسبت نہیں دی جارہی ہے ۔ 5 فان تولوا فقولوا اشھدو بانا مسلمون آیت کا یہ حصہ اھل کتاب سے بحث کے اختتام کی روش بیان کررہا ہے کہ اگر وہ تمہاری بات نہ مانیں، صداے فطرت کو نہ سنیں کہ جس کو مسترد کرنے کی کوئي دلیل نہیں ہے، تمام انبیاء الھی کی د
عوت حق کو ٹھکرادیں تو تم یہ اعلان کردو کہ ہم نے حق کے اصول قبول کرلۓ ہیں اور ان پر کاربند ہیں اورتم اس پرگواہ رہنا (یعنی بغیر کسی جھڑپ اور نظریہ مسلط کۓ بغیر ان سے الگ ہوجاؤ) بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہےکہ اگر تم ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم انہیں نظر اندازکردیں اور ان پر توجہ نہ کریں بلکہ ہم انبیاء ماسلف کی راہ پر چلنے والے اور دعوت فطرت پر لبیک کہنے والے ہیں اور تم ان امورکو ہمارے اعمال و افعال میں مشاھدہ کروگے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next