ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

جان لاک کہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال موثر واقع نہیں ہوتا کیونکہ طاقت سے بظاہر انسان کو اطاعت کرنے پرمجبور کیا جاسکتا ہے لیکن دل کی گہرائيوں سے اسے کسی عقیدے کے قبول کرنے پر ہرگزمجبور نہیں کیا جاسکتا،وہ کہتے ہیں کہ طاقت کے استعمال کا واحد نتیجہ نفاق تظاہراور ریاکاری کوفروغ دینا ہے بنابریں عقائد کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اخلاقی لحاظ سے نقصان دہ ہے اور بدرجہ اولی راہ راست کی طرف ھدایت کا باعث نہیں بن سکتا اور نہ سعادت کا موجب ہے66 ۔

قرآن میں آزادی کے بارے میں کئي آیات ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ انسان اپنی آزادی کے سہارے اپنی راہ کے منتخب کرنے کاخود ذمہ دار ہے اور اسے اس بارے میں جواب دینا ہوگا ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے لااکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی 67 دین مین کسی طرح کا جبرواکراہ نہیں ہے کیونکہ ھدایت کاراستہ گمراہی کے راستے سے الگ ہوچکاہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ دین سچا راستہ اورصراط مستقیم ہے ورنہ لااکراہ فی الدین کے کوئی معنی نہ ہوتے کیونکہ اکراہ و زبردستی کسی چیزکو اپنے قلبی لگاؤ کے برخلاف قبول کرنے وکوکہتے ہیں لیکن اگرکوئي فکر واضح اور سچائي پرمبنی ہوتو وہ انسان کو انتخاب واختیار کا موقع فراہم کرتی ہے اور ٹھوس دلیلوں اورمتقن گفتگوسے انسان کو ھدایت کی راہ دکھاتی ہے نیزاس نکتے پر بھی تاکید کرتی ہےکہ غلط راہ اور گمراہی کا انتخاب کرنے والااپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور اسے اپنے برے انجام کا منتظر رہنا ہوگا کیونکہ دین نے کسی طرح کی زبردستی نہیں کی ہے ارشاد ہوتاہے وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر 68 اے رسول تم کہہ دو کہ سچی بات تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوچکی ہے جس جو چاہے مانے اور جوچاہے نہ مانے ۔

اس آیت شریفہ سے یہ استفادہ ہوتاہےکہ ہرانسان اپنی راہ انتخاب کرنے کا خود ذمہ دار ہے ، ارشاد ہوتاہے ولوشاء ربک لآمن من فی الارض کلھم جمیعا ،افانت تکرہ الناس حتی یکونوامومنین 69 اگر تمہارا پروردگارچاھتا تو جتنے لوگ روے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے توکیا تم لوگوں پرزبردستی کرنا چاہتے ہوتاکہ سب کے سب ایماندار ہوجائیں ۔

ایک اور آيت میں ارشاد ہوتاکہ ولوشاء اللہ مااشرکوا وماجعلناک علیھم حفیظا وماانت علیھم بوکیل 70 اور اگر خداچاھتا تو یہ لوگ شرک ہی نہ کرتے اور ہم نے تمکو ان لوگوں کا نگہبان تو بنایا نہیں ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو۔

ان آيات سے یہ واضح ہوتاہے کہ اے پیغمبر تم لوگوں کی فکروں پر دباؤنہیں ڈال سکتے بلکہ اپنی فکرپیش کرواور اپنی رسالت کو اس کے نتائج کی پرواہ کۓ بغیر انجام دو ۔

فذکرانماانت مذکر و لست علیھم بمسیطر 71 اے رسول تم بس نصیحت کرنے والے ہو تم لوگون پر داروغہ تو نہیں ہو۔

ان تمام آیات سے فکروتعقل کی اھمیت واضح ہوتی ہے اوریہ بھی پتہ چلتا ہےکہ فکروخرد پر دباؤنہیں ڈالاجاسکتا کیونکہ یہ کام منطق و فکر سالم کے منافی ہے ۔

بہر صورت خدا فرماتاہے کہ اگر ہم چاہتے تو سارے انسانوں کو ایک ملت میں شامل کردیتے لیکن ہم نے چاہا کہ ان کا امتحان لیں تاکہ وہ خود اپنی راہ پیدا کريں اور ولوشاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ ولایزالون مختلفین 72 اور اگر تمہاراپروردگارچاہتا تو بیشک تمام لوگوں کو ایک ہی قسم کی امت بنادیتا (مگراس نے نہ چاہا اسی وجہ سے )لوگ آپس میں پھوٹ ڈالاکریں گے ۔
ولوشاء لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلوکم فی مااتیکم 73 خدااگرچاہتاتو تم کوایک ہی امت بنادیتا تاکہ اپنی عطاکی ہوئي نعمتوں کے بارے میں تمہارا امتحان لے ۔

ان تمام امور سے پتہ چلتاہےکہ اگردینداری جبراہوتو اسے دینداری نہیں کہ سکتے ،لوگوں کو مجبورکیا جاسکتاہے لیکن ان کی فکر کو بیڑی نہیں پہنائي جاسکتی اعتقاد کے لۓ ضروری ہےکہ دلیل و منطق پراستوار ہو البتہ امربالمعروف و نہی ازمنکرکا مسئلہ الگ ہے اس میں بھی ارشاد ہے اجبار نہیں ہے ۔

 

حاشیہ ۔

1 سب سے پہلی گفتگو ھابیل و قابیل کے درمیان قربانی کی قبولیت یا عدم قبولیت کے بارے میں ہوئي تھی (سورہ مائدہ 27-30 )
2 الامام الصدر و الحوار(کلمۃ سواء)الموتمرالدول ص95
3 دکتراحمد شلبی ،مقارنۃ الادیان ،الطبعۃ الثامنہ ج 1 ص27
4سورۃ بقرہ 113
5 سورہ بقرہ
6سورۃ بقرہ 32-30
7اسورہ اعراف 18-12
8 عنکبوت 14
9ھود 32
10 ھود 47-45
11ھود 74
12نحل 125
13 مفسرین کا کہنا ہےکہ صرف ایک خاص گروہ کو حکمت و برھان و دلیل عقلی وعلمی کے ذریعے دعوت ھدایت دی جاسکتی ہے لیکن بعض لوگ عقلی وعلمی استعداد کے حامل نہيں ہوتے ہیں انہیں وعظ ونصیحت و قصہ وحکایات کے ذریعے ھدایت کی جاسکتی ہے ،تیسراگروہ ایسا ہے جو صرف اعتراض کرنا جانتا ہے اس کے ساتھہ بحث ومباحثہ کرنا چاہیے لیکن اچھے اور بہتر طریقے سے ،مباحثہ کرتے وقت راہ حق وحقیقت سے خارج نہیں ہونا چاہیے بے انصاف حق کشی اور جھوٹ کا سہارانہی لینا چاہیے ۔
14 عنکبوت 48
15 نوح 21/شعراء130و151 /انبیاء54 /طہ47/زخرف63 /
16 زخرف 87 /عنکبوت 61و63 /لقمان 25 /زمر38/زخرف 9/۔
17 زمر3 ۔
18 یوسف 106
19 کلینی ،کافی ج4 ص 143
20 مجلسی ،مرآۃ العقول ج11 ص234 ۔
21 توبہ 31 ۔
22 محمد ابوزہرہ ،تاریخ الجدل ۔
23 فصلت 34
24 زمر 18
25 وصیتہ لھشام وصفتہ للعقل ان اللہ تبارک وتعالی بشراھل العقل والفہم فی کتابہ فقال فبشر عبادی۔۔۔۔۔
بحارالانوار ج75 ص296 ۔کلینی کافی ج1 ص14 روایت 12
26 المیزان ج23 ص 251
27 انفال 22
28 کلینی کافی ج1 ص35
29 فیض کاشانی ،محجۃ البیضاء قم ج1ص21 ۔
30 کلینی کافی ج1ص43 روایت 5
31 کلینی ایضا ج8ص167
32 خذوالحق من اھل الباطل ولاتاخذالباطل من اھل الحق کونوانقادالکلام بحارالانوار ج2 ص96رایت 39۔
33 نھج البلاغہ ،صبحی صالح حکمت 289
34نہج البلاغہ خطبہ 94
35 نہج البلاغہ حکمت 139
36 اسراء 36
37 اصول کافی ،چاپ آخوندی ج2ص388
38 تفکرسیاسی ،گلن تیندر،ترجمہ محمود صدری ص23
39 جانلد،نسبت گرائي اخلاقی ،ودسورث 1973 مجلہ نقد ونظر ش13-14 ص327
40 الگوھاے فرھنگ نیویورک 1942 ،ص219 مجلہ نقد ونظر ش13-14 ص327
41تفکرسیاسی گلن تندر ترجمہ محمودصدری ص 23
42 مجلہ نقد ونظر ش 13-14 ص335
43 سورہ روم 30 ۔
44 ترجمہ تفسیر المیزان ج31 ص288-287
45 سورہ اعراف 172
46 يس 60
47 سورہ نساء 1
48 نہج البلاغہ خطبہ اول
49 ص 72
50 نہج البلاغہ مکتوب 53
51مولوی دیوان شمس
52سورہ حجرات 13
53 البتہ خدا کے سامنے تسلیم ہونے کے لۓ اس کے بھیجے ہوۓ احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اور خدا کی آخری شریعت یعنی اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنا لازمی ہے ۔
54 آل عمران 19
55 آل عمران 67
56 نساء 98
57 یہ سورہ توبہ کی آیت 106 کی طرف اشارہ ہے
58 سورہ توبہ کی آیت 102 کی طرف اشارہ ہے
59 سورہ اعراف کی آيت 42 کی طرف اشارہ ہے
60 کلینی کافی ج4 ص92
61 کلینی ایضا ج3 ص76 ۔
62آل عمران 163
63 بحارالانوارج2 ص190
64 کلینی ایضا ج2 باب الضلال ص 104 نقل ازکتاب عدل الھی شہید مطہری ص345 ۔
65 نقل ازعدل الھی شہید مطہری ص 349
66 تسامح آری یا نہ دفتر نخست ص 49
67 بقرہ 256
68 کھف 29
69 یونس 99
70 انعام ر107
71 غاشیہ 21-22
72 ھود 118
73 آل عمران 48۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11