ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

روایات میں بھی صلاحیتوں اور درجات ایمان کے اختلاف پر توجہ کی گئي ہے ۔

مرحوم کلینی علیہ الرحمۃ کافی میں زرارہ سے نقل کرتے ہیں کہ زرارہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا ،کیا ہم خود کو میزان قراردیں امام علیہ السلام نے فرمایا میزان کیا ہے ؟انہوں نے کہا جو بھی ہم سے موافق ہو خواہ علوی ہو یا غیر علوی (اسے ہم مسلمان اوراھل نجات کے طورپر دوست رکھیں )اور جو ہمارا مخالف ہو خواہ علوی ہو یا غیر علوی اس سے بیزاری کا اظہارکريں (گمراہ و اھل ھلاکت کے طورپر )اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا کیا خداکا کلام تمہارے کلام سے زیادہ صحیح نہیں ہے ؟ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کے بارے میں خدانے فرمایاہےکہ "مگر جو مرد اور عورتیں اور بچے اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو (دارلحرب سے نکلنے کی) کوئي تدبیر کرسکتے ہیں نہ انہیں اپنی رہائي کی کوئي راہ دکھائی دیتی ہے 56،اوران لوگوں کا کیا ہوگا جو خدا سے امید رکھتے ہیں 57 ،اور ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے نیک کاموں کے ساتھ برے کام بھی کۓ ہیں 58 اصحاب اعراف کا کیا ہوگا 59؟اور مولفۃ القلوب کا کیا بنے گا ؟

حماد اپنی روایت میں زرارہ سے نقل کرتے ہیں کہ زرارہ نے کہا اس موقع پر میرے اورامام علیہ السلام کے درمیان بحث ہونے لگی ہم دونوں کی آوازبلند ہوگئي یہانتک کہ گھر سے باہر بھی آوازسنی جاسکتی تھی 60 ۔

اس حدیث میں امام علیہ السلام کی مراد یہ ہےکہ اچھايی برائي اور اھل بہشت ودوزخ ہونے کا معیار صرف شیعوں سے ہم عقیدہ ہونا نہیں ہے بلکہ امام نے فرمایا کہ وہ لوگ جو شیعہ نہیں ہیں اور قاصرہیں اور عنادبھی نہیں رکھتے اور وہ لوگ جن کے اوصاف قرآن میں ذکر کۓ گۓ ہیں وہ جنت میں جائيں گے کیونکہ خدانے انہیں معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے اوران سے بیزاری کا اظہارنہیں کرنا چاہیۓ ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ "آپ لوگوں کو بیزاری سے کیا سروکارہے ایک دوسرےسے بیزاری کا اظہارکیوں کرتے ہیں ؟بعض مومنین کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اور کچہ لوگ کچہ لوگوں سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہيں اور کچہ لوگوں کی بصیرت دوسروںسے زیادہ ہے اور یہی ایمان کے درجات ہیں 61 جس کے بارے میں خدانے فرمایاہے "ھم درجات عنداللہ 62 ۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر ابوذرکو معلوم ہوتاکہ سلمان کے دل میں کیاہے تو انہیں قتل کردیتے جبکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا تھا 63 ،بنابریں بحث و گفتگو میں ان تمام اختلافات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور بےجا توقع بھی نہیں رکھنا چاھیۓ ۔
ھاشم بن البرید سے روایت ہےکہ میں ،محمد بن مسلم اورابوالخطاب ایک جگہ جمع تھے ،ابوالخطاب نے سوال کیا کہ جو شخص امر امامت سے واقف نہ ہواس کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے ،میں نے کہا میرے خیال میں وہ کافرہے ابوالخطاب نے کہا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہوجاۓ وہ کافرنہیں ہے اگرحجت تمام ہوجاے اور اس کے بعد اس نے امام کونہیں پہچانا تو کافرہے ،محمد بن مسلم نے کہا سبحان اللہ اگر امام کو نہ پہچانتاہو اور انکاربھی نہ کرتاہو توکس طرح سے کافر کہلاۓ گا ہرگزنہیں غیرعارف اگر منکرنہ ہوتو کافرنہیں ہے ھاشم بن البرید کہتے ہیں اس طرح ہم تینوں تین الگ الگ نظریات کے حامل تھے ۔

وہ کہتے ہیں موسم حج آن پہونچا مکہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی بحث کی تفصیل سے امام کو آگاہ کیا اور آپ سے جواب چاھا ،امام نے فرمایا کہ میں اس وقت تمہاراجواب دونگا جب تم تینوں ساتھ ہوگے اور آج کی رات منی میں جمرہ وسطی کے پاس میرے پاس آنا ،رات کو ہم تینوں امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ ،امام علیہ السلام نے ایسے عالم میں کہ اپنے سینے سے تکیہ لگاۓ ہوۓ تھے سوال پوچھنا شروع کیا کہ تم لوگ اپنے ملازموں ،عورتوں اور اھل خانہ کے بارے میں کیاکہتے ہو؟کیا یہ لوگ وحدانیت خداکی گواہی دیتے ہیں ،میں نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا کیارسول کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں میں نے کہا جی ہاں ،آپ نے فرمایا کیا وہ لوگ تم لوگوں کی طرح امامت وولایت کی شناخت رکھتے ہیں ،میں نے کہا جی نہیں اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایاکہ پس تم لوگوں کی نظر مین ان کا انجام کیا ہوگا ؟مین نےکہا جو شخص امام کو نہ پہچانے کافرہے امام نے فرمایا سبحان اللہ کیا تم نے کوچہ وبازار میں لوگوں کونہیں دیکھا سقاوں(بہشتیوں ) کو نہیں دیکھا ،میں نے کہا کیوں نہیں دیکھا ہے اور دیکھتےہیں آپ نے سوال فرمایا کیا یہ لوگ نمازنہیں پڑھتے روزہ نہیں رکھتے حج نہیں بجالاتے اورخدا کی وحدانیت و رسول خدا کی رسالت کی گواہی نہیں دیتے ؟میں نے کہا جی ہاں ،اس کے بعد امام نے فرمایا کیا یہ لوگ تمہاری طرح امام کو پہچانتےہیں ؟میں نے کہا جی نہیں ،تو امام نے فرمایا پس ان کا کیا ہوگا ؟میں نے کہا میرےخیال میں جو شخص امام کو نہ پہچانے وہ کافر ہے ،اس وقت امام نے فرمایا سبحان اللہ کیا تم کعبہ کے اطراف لوگوں کی بھیڑاور ان کے طواف کو نہیں دیکھہ رہے ہو؟کیا تم نہیں دیکھہ رہے ہوکہ اھل یمن کس طرح سے کعبہ کے پردوں سے چپکے ہوۓ ہیں ،میں نے کہا جی بے شک آپ نے فرمایا کیا یہ لوگ توحید و نبوت کا اقرارنہیں کرتے ؟نمازنہیں پڑھتے ؟روزہ نہیں رکھتے ،حج نہیں بجالاتے ؟میں نے کہا کیوں نہیں تو آپ نے فرمایا کیا یہ لوگ تمہاری طرح سے امام کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا جی نہیں ،امام نے فرمایا ان لوگوں کے بارے میں تمہارا کیاعقیدہ ہے میں نے کہا میرے خیال میں جو لوگ امام کو نہیں پہچانتے وہ کافرہیں امام نے فرمایا سبحان اللہ یہ تو خوارج کا عقیدہ ہے ۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کیا چاہتے ہومیں تمہيں حقیقت سے آگاہ کروں ؟

ھاشم کہ جوجانتا تھا امام کافیصلہ اس کے عقیدہ کے برخلاف ہوگا

اس نےکہا نہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next