ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1


اصول کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہےکہ "لو ان العباد اذا جھلوا وقفوا ولم یجحدوا ،لم یکفروا"37 یعنی اگر عوام جہل و نادانی کی صورت میں عمل نہ کریں اور انکارنہ کريں تو کافر نہیں ہونگے

ب:انسانوں کی برابری کااصول ۔

آج کل یہ سوال برابر ذھنوں میں خطور کررہا ہےکہ کیا انسان ایک دوسرے سے بیگانے ہیں ؟ مثال کے طور پر یہ سوال کبھی اس طرح بھی پیش کیا جاتاہے کہ کیا یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ کسی دن سارے انسانون کے درمیان مفاھمت اور یکجھتی پیدا ہوجاے گي ؟اگر انسان ذاتا ایک دوسرے سے بیگانے نہ ہوں تو یہ امید کی جاسکتی ہے ۔

اس سلسلے میں دو متباین نظریات ہیں ۔

1 انسان ایک دوسرے سے بیگانے ہیں ؛کسی فلسفی نے" تھامس ھابز"(1679-1588 )کی طرح اس مسئلہ پر بحث نہیں کی ہے ان کے استدلال کے مطابق انسان ذاتا اپنے بنی نوع کا مخالف ہے اگر طاقتور مرکزی حکومت نہ رہے جو ڈنڈے کے زور پر حکومت نہ کرے توانسان مفاھمت آمیززندگی نہیں گذارے گا بلکہ شدید مسائل میں گرفتار نظرآے گا ۔

مجموعی طورسے ھابزکے فلسفے میں اس بیگانگی کے دوپہلو ہیں ایک پہلو نفسیات سے مربوط ہے ،انسان محض اپنی ذاتی خود غرضی اور خود محوری کی بناپر ایک دوسرے سے بیگانہ ہے ہر انسان پہلے مرحلے میں صرف اپنی زندگي کی فکر میں ہوتاہے اور بعد کے مراحل میں دولت منزلت و مقام ومنصب کی فکرکرتاہے، ھابز کا خیال ہے کہ "انسان کسی دوسرے کو اھمیت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کے ھدف میں ممدو معاون ثابت ہویا اس کی راہ میں رکاوٹ ہو بنابریں انسان کی زیادہ ترتوجہ اپنی زندگی اور مقام پر ہوتی ہے ۔

اس نفسیاتی پہلوکے تحت ایک امر ہے جسے ہم "بیگانہ ہستی شناسی کا پہلو "کہہ سکتے ہیں ،ہستی مجموعہ اشیاء متحرک سے عبارت ہے ۔

ہر حقیقت و واقعیت مشخص زمان و مکان سے تعلق رکھتی ہے اور تغیر ناپذیر قوانین طبیعیات اس پر حاکم ہوتے ہیں ہر انسانی فرد اس دنیا کا تعمیری اور مفید جزء ہے وہ نباتات و جمادات سے پیچیدہ تر ہے تاہم ان سے ماھیتا فرق رکھتاہے ،مادی اشیاء ایک دوسرے سے صوری فرق رکھتی ہیں ،انسان کو شفقت ،ھمدلی ،اور مشترکہ ھدف جیسے قیود متحد نہیں کرسکتے انسان صرف اس لحاظ سے یگانگت اور اتحاد کا حامل ہوسکتاہے کہ اسے ایک دیوار میں پتھروں کی طرح سے چن دیا جاۓ (38)یہیں سے اخلاقیات میں نسبیت پسندی کا نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ کسی بھی اخلاقی قدر کلی اعتبار کی حامل نہیں ہے بلکہ تمام اخلاقی اقدارکا اعتبار تہذیب و تمدن و فردی لحاظ پر منحصرہے ۔

برن یونیورسٹی کے استاد "جان لڈ"اخلاقي نسبیت پسندی کی اس طرح تعریف کرتے ہیں "اخلاقی نسبیت پسندی ایک ایسا امر ہے جس کے تحت اخلاقی لحاظ سے صحیح وغلط اعمال الگ الگ ہوتے ہیں اور کو‏ئي بھی عام اور مطلق اخلاقی معیار جو تمام انسانوں کے لۓ ہرزمانے میں لازمی ہو موجود نہیں ہے(39) روث بندیکٹ دوسرے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ "ہر تہذیب و تمدن انسانی محرکات و بالقوہ اھداف کے عظیم مجموعہ سے ترکیب پاتی ہے ،ہر تہذیب میں اس کے خاص مادی وسائل و ذرایع اور ثقافتی خصوصیات سے استفادہ کیا جاتاہے اوریہ مجموعہ جس میں انسان کا ہر ممکن عمل شامل ہوسکتاہے اس قدر عظیم اور متضاد ہوتا ہےکہ کوئي ایک تہذیب اس کا یا اس کے بیشتر عناصر کا احاطہ نہیں کرسکتی بنابریں انتخاب شرط اول ہے (40)

2 :دوسرا نظریہ ہے انسانوں کی يگانگت کا ،بہت سے مفکرین کا کہنا ہےکہ انسان بنیادی طورسے ایک ہیں اس نظریے کے حامل مفکرین میں ارسطو سرفہرست ہیں ان کی نظر میں انسان اس پتے کی طرح ہے جو اپنی طبیعت کے لحاظ سے درخت کا حصہ ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھہ ناگزیر شہر کا حصہ بھی ہے ،ارسطو کہتے ہیں کہ وہ گوشہ نشین انسان جو معاشرے کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا یا وہ انسان جو خود کفیل ہونے کی وجہ سے اس مشارکت سے بے نیاز ہے وہ شہر کے کارآمد عناصر میں شامل نہیں ہے بلکہ حیوان ہے یا خدا ہے 41



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next