ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

 

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایاکہ تم لوگوں کے لۓ کس قدر بری بات ہے کہ جو چیزیں ہم سے (اھل بیت ) سے نہیں سنی ہیں اپنی طرف سے کہو،ھاشم نے بعد میں دوسروں سے کہا کہ میں یہ سوچ رہا تھاکہ امام محمد بن مسلم کی نظر کی تائيد کرکے ہمیں اس کی پیروی کا حکم دیں گے 64 ۔

اسلامی فلاسفہ نے اس مسئلہ کو الگ صورت میں بیان کیا ہے تاہم جو نتیجہ اخذ کیا ہے پوری طرح وہی ہے جو ہم نے آيات و روایت سے استفادہ کیا ہے ۔

صدرالمتآلھیں اسفار میں خیروشر کی بحث میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض کہ کس طرح خیرشرپر غالب ہے ؟جبکہ انسان جوکہ اشرف کائنات ہے جب اسے دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان عمل کے لحاظ سے برے اعمال کا شکار ہیں اور اعتقاد کے لحاظ سے عقائد باطل اور جھل مرکب میں گرفتار ہیں اوراس سے ان کی آخرت خراب ہوجاتی ہے اور مستحق شقاوت و عذاب ہوجاتے ہیں لھذا بنی نوع انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کا انجام شقاوت و جہنم ہے ۔

صدرالمتآلھین اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہيں کہ آخرت میں لوگ شقاوت و سعادت کے لحاظ سے اس دنیا میں صحت وسلامتی کے لحاظ سے ہیں کیونکہ اس دنیا میں مکمل صحت وسلامتی ،مکمل خوبصورتی،مکمل بیماری وغیرہ نہایت کم یا اقلیت میں ہے اور اکثریت متوسطین کی ہے جو نستبا ان صفات کے حامل ہیں اسی طرح آخرت میں "کملین "کہ جنہیں قرآن السابقون کے لقب سے یاد کرتاہے ان کی تعداد بھی اقلیت میں ہے اور اکثریت متوسطین کی ہے جنہیں قرآن "اصحاب الیمین "کہتاہے بنابریں دونوں صورتوں میں اکثریت رحمت خدامیں شامل ہے 65 بالفاظ دیگر اسلام اور فقہی لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن حقیقت میں مسلم ہیں یعنی حقیقت کے سامنے تسلیم ہیں اور اس سے عناد نہیں رکھتے ہیں ۔


د:آزادی فکر،آزادی انتخاب مذھب و طریقت :اس بارے میں ادیان الھی کا کہنا ہےکہ دنیوی زندگی کاھدف آخرت ہے ۔

انسانوں کو اس دنیا مین اس طرح زندگی گذرانا چاہیے کہ آخرت میں سعادت و کامرانی حاصل ہوسکے اور اس ھدف کوپانے کے لۓ دینی اعقتادات کاحامل ہونا ضروری ہے تاکہ اعمال درگآہ خداوندی میں قبول ہوں اور عفو بخشش کے سامان فراہم ہوسکیں ورنہ محض عقل و اخلاقی اصولوں کی پیروی انسان کو سعادت مند نہیں بناسکتی ۔

اب جبکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ انسان کی سعادت کے لۓ خدا اورمعاد پر ایمان ضروری ہے تو انسان کو اس راہ پر گامزن کرنے کے لۓ کیا کرنا چاہيے ؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو سعادت کے راستے پر لگانا چاہیۓ "اگوسٹین "اس نظریے پر استدلال کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اگر یہ یقینی ہوکہ کوئي ایمان سے دستبردار ہونے کی صورت میں ابدی عذاب میں گرفتارہونے والا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اسے طاقت کے بل بوتے پر مومن بنایا جاےتاکہ اسے ابدی سعادت حاصل ہوجاۓ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح سے طاقت کا استعمال پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے انسان کو بہشت حاصل ہوجاتی ہے اور اگر انسان طاقت کے استعمال کے دوران مر بھی جاے تو یہ تکلیفیں آخرت کے عذاب کے مقابل کچہ بھی نہیں ہیں کیونکہ ان تکلیفوں کے ذریعے انسان کی آخرت سدھاری جاتی ہے ۔

اس نظریے کے مقابل دوسرا نظریہ، یہ ہےکہ دین پر اعتقاد،بلا جبر یعنی ازروی اختیار ہے ،طاقت کے استعمال اور جبرسے کبھی بھی قلبی اعتقاد وایمان حاصل نہیں ہوسکتا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next