سنت صحابہ کی حقیقت



الف:یا حجیت مو ضوعی مراد ہے یعنی جس طرح سنت پیغمبرمو ضوعیت رکھتی ہے سنت صحابہ بھی مو ضوعیت رکھتی ہے ،حجت مو ضوعی یعنی جوذاتی طور پر حجت ہے اور حکم وجوب متابعت اور فرمان تعبد کے لئے جسے موضوع قراردیاجائے،نہ یہ کہ حجت تک پہنچنے کی راہ یا کاشف حجت ہو،

ب: دوسرا احتمال سنت صحابہ کی حجیت کے سلسلے میں یہ ہے کہ :مراد حجیت طریقی ہو یعنی سنت صحابہ چونکہ حجت ذاتی ”سنت نبوی،،تک پہنچنے کی راہ ہے اس لئے حجت ہے پھر ایسی صورت میں خبر صحابی ،خبر واحد کی تمام شرطوں کی حامل ہو نا چاہیے مثلا ثقہ ہونا ،عادل ہونا وغیرہ ،لہٰذا اگر صحابی کا قول حجت ہے تو مخبر کے ثقہ ہونے کی وجہ سے ہے بشرطیکہ اس کا عادل یا ثقہ ہونا ثابت ہوجائے۔

اہل سنت کے اصولی علماء کے کلام سے ظاھر ہوتاہے کہ وہ سنت صحابہ کے سلسلے میں حجیت موضوعی کے قائل ہیں نہ کہ حجیت طریقی کے ،در حقیقت علمائے اہل سنت میں سے جولوگ سنت صحابہ کی حجیت کے قائل ہیں وہ سنت صحابہ کے لئے قرآن وسنت رسول کی سی شانیت کے قائل ہیں ، ،

۱۔:ابن قیم جو زیہ کہتے ہیں :اگر کو ئی اقوال صحابہ کی پیروی کرے بغیر اس کے کہ اس کی صحت و سقم کے بارے میں تحقیق کرے ، قابل مدح و ستائش ہے ۔(۶)

۲۔:شاطبی کہتے ہیں:روایات سے استفادہ ہو تا ہے کہ جو شخص سنت صحابہ کی پیروی کرے وہ سنت رسول کی پیروی کرنے والے شخص کے ما نند ہے۔(۷)

بعض کا خیال ہے کہ: سنت صحابہ کی حجیت سے اہلسنت کی مراد حجیت طریقی ہے نہ مو ضو عی اور اس کا معتبر ہو نا اس صورت میں ثابت ہو گا کہ یاتوسارے اصحاب نے انجام دیا ہو یا بعض نے انجام دیا ہو لیکن ان کاعمل مشہور ہو اور دوسرے اصحاب نے یا سکو ت اختیارکیا ہو اور یا تو کم از کم اس کی تردید نہ کی ہو یہ مسئلہ در حقیقت ،اجماع حقیقی ،تقدیری اور سکو تی کی طرف پلٹ جاتا ہے جو سنت نبوی کا یقین آور راستہ ہے لیکن یہ تو جیہ اہل سنت کے مقصود ومراد کے خلاف ہے کیو نکہ بعض علماء اہل سنت کے کلام سے ظاہر ہو تا ہے کہ سنت صحابہ کی اس طرح حجیت تسلیم نہیں کرتے ،

ابن قیم جوزیہ کہتے ہیں:صحابہ کا قول دو حال سے خالی نہیں ہے یا دوسرے صحابہ نے اس کی مخالفت کی ہے یا نہیں کی ہے پہلی صورت میں اس کا قول حجت نہیں ہے ،اور دوسری صورت میں یاتو اس کا قول اصحاب کے درمیان مشہور ہو جائے اور کوئی اس کی مخالفت نہ کرے یا ایسا نہ ہو پہلی صورت میں فقہاء کی اکثریت آراء کے مطا بق صحابہ کا قول اجماع کا حکم رکھتا ہے اور حجت ہے ، لیکن بعض فقہاء نہ اسے حجت جا نتے ہیں اور نہ ہی اسے اجما ع ساز ما نتے ہیں اور اگر صحا بی کا قول مشہو ر نہ ہو اہو یا اس کے مشہور ہونے یا نہ ہو نے کے بارے میں اطلاع نہ ہو اس صورت میں اصولیین نے اس کی حجیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے جمہو راہل سنت کا کہنا ہے کہ اس صورت میں بھی صحابی کا قول حجت ہے ۔(۸)

ابن قیم کی آخری عبارت سے بخوبی استفادہ ہو تا ہے کہ وہ قول صحابی کی حجیت ،سنت نبوی کی کا شفیت کے لحاظ سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ قول صحابی کو سنت نبوی کے ما نند حجت مو ضوعی کا درجہ دیتے ہےں۔

مقابل میں شیعہ امامیہ صحابہ کو اس جہت سے بقیہ افراد کے ما نند سمجھتے ہیں کہ ان کی سنت کی حجیت ،ہر ایک صحابی کی و ثاقت و عدالت کے اثبات پر مو قوف ہے ، اس لئے کہ تمام صحابہ کلی طور سے عادل نہیں ہیں اور اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف دلیلیں مو جود ہیں۔

صحابہ کے سلسلے میں غزالی کا نظریہ شیعہ امامیہ کے مو قف کے مطابق ہے وہ کہتے ہیں : جس شخص سے غلطی اور سہو کا امکان ہے وہ معصوم نہیں ہے لہذا اس کا قول حجت بھی نہیں ہے ایسی صورت میں اس کے قول سے کس طرح استناد و احتجاج کیا جا سکتا ہے ؟ کس طرح کچھ لو گوں کے لئے عصمت کا تصور کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کے درمیان بہت سے اختلافات مو جود تھے؟ بھلا عصمت کا احتمال کیو نکر دیا جا سکتا ہے جبکہ خود ہی صحابہ اس بات پر متفق ہیں کہ ، صحابی کے اقوال و رفتار کی مخالفت کی جا سکتی ہے ۔(۹)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next