حضرت امام زين العابدين عليه السلام



خاندانی دشمن مروان کے ساتھ آپ کی کرم گستری

واقعہ حرہ کے موقع پرجب مروان نے اپنی اوراہل وعیال کی تباہی وبربادی کایقین کرلیاتوعبداللہ بن عمرکے پاس جاکرکہنے لگاکہ ہماری محافظت کرو، حکومت کی نظرمیری طرف سے بھی پھری ہوئی ہے ،میں جان اورعورتوں کی بے حرمتی سے ڈرتاہوں ،انہوں نے صاف انکارکردیا،اس وقت وہ امام زین العابدین کے پاس آیااوراس نے اپنی اوراپنے بچوں کی تباہی وبربادی کاحوالہ دے کرحفاظت کی درخواست کی حضرت نے یہ خیال کیے بغیرکہ یہ خاندانی ہمارادشمن ہے اوراس نے واقعہ کربلاکے سلسلہ میں پوری دشمنی کامظاہرہ کیاہے آپ نے فرمادیابہترہے کہ اپنے بچوں کومیرے پاس بمقام منبع بھیجدو، جہاں میرے بچے رہیں گے تمہارے بھی رہیں گے چنانچہ وہ اپنے بال بچوں کوجن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھیں آپ کے پاس پہنچاگیااورآپ نے سب کی مکمل حفاظت فرمائی (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) ۔

دشمن ازلی حصین بن نمیرکے ساتھ آپ کی کرم نوازی

          مدینہ کوتباہ وبربادکرنے Ú©Û’ بعدمسلم بن عقبہ ابتدائے Û¶Û´ Ú¾ میں مدینہ سے مکہ کوروانہ ہوگیااتفاقا راہ میں بیمارہوکروہ گمراہ راہی جہنم ہوگیا،مرتے وقت اس Ù†Û’ حصین بن نمیرکواپناجانشین مقررکردیااس Ù†Û’ وہاں پہنچ کرخانہ کعبہ پرسنگ باری Ú©ÛŒ اوراس میں Ø¢Ú¯ لگادی، اس Ú©Û’ بعدمکمل محاصرہ کرکے عبداللہ ابن زبیر کوقتل کرناچاہا اس محاصرہ کوچالیس دن گزرے تھے کہ یزیدپلیدواصل جہنم ہوگیا، اس Ú©Û’ مرنے Ú©ÛŒ خبرسے ابن زبیرنے غلبہ حاصل کرلیااوریہ وہاں سے بھاگ کرمدینہ جاپہنچا۔

          مدینہ Ú©Û’ دوران قیام میں اس معلون Ù†Û’ ایک دن بوقت شب چندسواروں کولے کرفوج Ú©Û’ غذائی سامان Ú©ÛŒ فراہمی Ú©Û’ لیے ایک گاؤں Ú©ÛŒ راہ Ù¾Ú©Ú‘ÛŒ ،راستہ میں اس Ú©ÛŒ ملاقات حضرت امام زین العابدین سے ہوگئی ،آپ Ú©Û’ ہمراہ Ú©Ú†Ú¾ اونٹ تھے جن پرغذائی سامان لداہواتھا اس Ù†Û’ آپ سے وہ غلہ خریدناچاہا، آپ Ù†Û’ فرمایاکہ اگرتجھے ضرورت ہے تویونہی Ù„Û’ Ù„Û’ ہم اسے فروخت نہیں کرسکتے (کیونکہ میں اسے فقراء مدینہ Ú©Û’ لیے لایاہوں) اس Ù†Û’ پوچھاکہ آپ کانام کیاہے،آپ Ù†Û’ فرمایامجھے ”علی بن الحسین“ کہتے ہیں پھرآپ Ù†Û’ اس سے نام دریافت کیاتواس Ù†Û’ کہامیں حصین بن نمیرہوں، اللہ رے، آپ Ú©ÛŒ کرم نوازی، آپ جاننے کہ باوجودکہ یہ میرے باپ Ú©Û’ قاتلوں میں سے ہے اسے ساراغلہ مفت دیدیا(اورفقراء Ú©Û’ لیے دوسرابندوبست فرمایا) اس Ù†Û’ جب آپ Ú©ÛŒ یہ کرم گستری دیکھی اوراچھی طرح پہچان بھی لیاتوکہنے لگاکہ یزیدکاانتقال ہوچکاہے آپ سے زیادہ مستحق خلافت کوئی نہیں، آپ میرے ساتھ تشریف Ù„Û’ چلیں، میں آپ کوتخت خلافت پربٹھاؤں گا،آپ Ù†Û’ فرمایاکہ میں خداوندعالم سے عہدکرچکاہوں کہ ظاہری خلافت قبول نہ کرو Úº گا، یہ فرماکر آپ اپنے دولت سراکوتشریف Ù„Û’ گئے(تاریخ طبری فارسی ص Û¶Û´Û´) Û”

امام زین العابدین اورفقراء مدینہ کی کفالت

          علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ Ú©Û’ سوگھروں Ú©ÛŒ کفالت فرماتے تھے اورساراسامان ان Ú©Û’ گھرپہنچایاکرتے تھے جنہیں آپ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتاہے آپ کااصول یہ تھاکہ بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں روٹی اورآٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کاکہناہے کہ ہم Ù†Û’ اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ امام زین العابدین Ú©ÛŒ زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص Û²Û¶Ûµ ،نورالابصار ص Û±Û²Û¶) Û”

امام زین العابدین اوربنیادکعبہ محترمہ ونصب حجراسود

          Û·Û± Ú¾ میں عبدالملک بن مروان Ù†Û’ عراق پرلشکرکشی کرکے مصعب بن زبیرکوقتل کیا بھر Û·Û² ھء میں حجاج بن یوسف کوایک عظیم لشکرکے ساتھ عبداللہ بن زبیرکو قتل کرنے Ú©Û’ لیے مکہ معظمہ روانہ کیا۔(ابوالفداء)Û”

وہاں پہنچ کرحجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی ابن زبیرنے زبردست مقابلہ کیا اوربہت سی لڑائیاں ہوئیں ،آخرمیں ابن زبیرمحصورہوگئے اورحجاج نے ابن زبیرکوکعبہ سے نکالنے کے لیے کعبہ پرسنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدواڈالا، ابن زبیرجمادی الآخر ۷۳ ھء میں قتل ہوا(تاریخ ابن الوردی)۔ اورحجاج جوخانہ کعبہ کی بنیادتک خراب کرچکاتھا اس کی تعمیرکی طرف متوجہ ہوا۔ علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پرلوگ اس کی مٹی تک اٹھاکرلے گئے اورکعبہ کواس طرح لوٹ لیاکہ اس کی کوئی پرانی چیزباقی نہ رہی، پھرحجاج کوخیال پیداہواکہ اس کی تعمیرکرانی چاہئے چنانچہ اس نے تعمیرکاپروگرام مرتب کرلیااورکام شروع کرادیا،کام کی ابھی بالکل اتبدائی منزل تھی کہ ایک اژدھابرآمدہوکرایسی جگہ بیٹھ گیاجس کے ہٹے بغیرکام آگے نہیں بڑھ سکتاتھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کودی، حجاج گھبرااٹھا اورلوگوں کوجمع کرکے ان سے مشورہ کیاکہ اب کیاکرناچاہئے جب لوگ اس کاحل نکالنے سے قاصررہے توایک شخص نے کھڑے ہوکرکہاکہ آج کل فرزندرسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہترہوگا کہ ان سے دریافت کرایاجائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیںکرسکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کوزحمت تشریف آوری دی، آپ نے فرمایاکہ اے حجاج تونے خانہ کعبہ کواپنی میراث سمجھ لیاہے تونے توبنائے ابراہیم علیہ السلام کواکھڑوا کر راستہ میں ڈلوادیاہے ”سن“ تجھے خدااس وقت تک کعبہ کی تعمیرمیں کامیاب نہ ہونے دیے گا جب تک توکعبہ کالٹاہواسامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کراس نے اعلان کیاکہ کعبہ سے متعلق جوشے بھی کسی کے پاس ہووہ جلدسے جلد واپس کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھرمٹی وغیرہ جمع کردی جب آپ اس کی بنیاداستوارکی اورحجاج سے فرمایاکہ اس کے اوپرتعمیرکراؤ ”فلذالک صار البیت مرتفعا“ پھراسی بنیادپرخانہ کعبہ کی تعمیرہوئی (کتاب الخرائج والجرائح میں علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیرکعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجراسودنصب کرناتھا تویہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم،زاہد، قاضی اسے نصب کرتاتھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجراسودمتزلزل اورمضطرب رہتا اوراپنے مقام پرٹہرتانہ تھا بالآخرامام زین العابدین علیہ السلام بلائے گئے اورآپ نے بسم اللہ کہہ کراسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے اللہ اکبرکانعرہ لگایا(دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۷) ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next