پيغمبر رحمت



يہ پيغمبر (ص) كا چچا زاد اور دودھ شريك بھائي تھا ، اس نے كچھ مدت جناب حليمہ كا دودھ پيا تھا اور پيغمبر (ص) كا ہم سن تھا_

بعثت سے پہلے تو يہ ٹھيك تھا مگر بعد ميں يہ آپ (ص) كا سخت ترين دشمن بن گيا ، پيغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں كى ہجو ميں يہ اشعار كہا كرتا تھا، بيس سال تك اس نے پيغمبر (ص) سے دشمنوں كا سا سلوك روا ركھا مسلمانوں سے لڑى جانے والى تمام جنگوں ميں كفار كے ساتھ رہا ، يہاں تك كہ اس كے دل ميں نور اسلام كى روشنى پہنچ گئي ، چنانچہ ايك روز وہ اپنے بيٹے اور غلام كے ساتھ مكہ سے باہر آيا اور اس وقت پيغمبر (ص) كے پاس پہونچا كہ جب آپ (ص) حنين


1)(مغازى واقدى ج2 ص 648، ترجمہ ڈاكٹر محمود مہدوى دامغاني)_

 

149

كى طرف روانہ ہورہے تھے، اس نے كئي بار اپنے آپ كو پيغمبر (ص) كے سامنے پيش كرنے كى كوشش كى ليكن آنحضرت(ص) نے كوئي توجہ نہيں دى اور اپنا رخ اس كى جانب سے پھير ليا ، مسلمانوں نے بھى رسول اكرم (ص) كى پيروى كرتے ہوئے بے اعتنائي كا ثبوت ديا ، ليكن وہ بھى پيغمبر (ص) كے لطف و كرم كا اميدوار رہا ، بات يوں ہى ٹلتى رہى يہاں تك كہ جنگ حنين شروع ہوگئي ابوسفيان كا بيان ہے كہ پيغمبر (ص) ميدان جنگ ميں ايك سفيد اور سياہ رنگ كے گھوڑے پر سوار تھے آپ (ص) كے ہاتھوں ميں برہنہ تلوار تھى ، ميں تلوار لئے ہوئے اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور ميں نے عمداً اپنى تلوار كى نيام توڑ ڈالى ، خدا شاہد ہے كہ وہاں ميرى يہى آرزو تھى كہ پيغمبر (ص) كا دفاع كرتے ہوئے ميں قتل كرديا جاؤں_

عباس بن عبدالمطلب نے پيغمبر (ص) كے گھوڑے كى لگام تھام ركھى تھى ميں بھى دوسرى طرف تھا،آنحضرت (ص) نے ميرى طرف نگاہ كى اور پوچھا كہ يہ كون ہے ؟ ميں نے چاہا كہ اپنے چہرہ كى نقاب ہٹادوں، عباس نے كہا :

اے رسول خدا (ص) يہ آپ كا چچا زاد بھائي ابوسفيان بن حارث ہے ، آپ اس پر مہربانى فرمائيں اور اس سے راضى ہوجائيں، آپ (ص) نے فرمايا : ميں راضى ہوگيا خدا نے اس كى وہ تمام دشمنى جو اس نے مجھ سے كى معاف كردى ہے _

ابوسفيان كا كہناہے كہ ميں نے پيغمبر (ص) كے پاؤں كو ركاب ميں بو سے ديئے آنحضرت(ص) نے ميرى طرف توجہ كى اور فرمايا: ميرے بھائي تمہيں ميرى جان كى قسم يہ نہ كرو پھر آپ (ص) نے

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next