آج کے دور میں اسلامی قوانین کی معنویت



ترجمہ: اگر مجھے اسے بات کااندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا وجوبی حکم دیتا ۔

کعبہ میں ترمیم نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا:لولا حدثان قومک بالکفر لہدمت الکعبة ثم لجعلت لہا بابین (الحدیث) (مسدن احمد ص ۱۸۹۶ حدیث نمبر ۲۵۹۵۲)

ترجمہ: اگر میری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ کر اساس ابراہیمی پر اس کے دروازے بنادیتا (اور حطیم کو اس میں شامل کرتا)

آپ کا عام دستور تھا کہ جب آپ کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس میں آسان تر کو اختیار فرماتے بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہوتا ۔

وما خیر رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم الا اختار أَیْسرہما مالم یکن اثماً . (متفق علیہ: مشکوٰة:۵۹۱، مسند احمد بروایت حضرت عائشہ ص ۱۸۳۷ حدیث نمبر ۲۵۰۵۶)

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نے حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے پوچھا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا کیا مطلب ہے جب کہ ہم کو بدکاری، چوری اور دوسری بہت سی سفلی خواہشات کی چیزوں سے روک دیاگیا ہے، حضرت ابن عباس نے جواب دیا تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ سخت قسم کے احکام کا جو بوجھ بنی اسرائیل پر تھا وہ اس امت پر نہیں ہے ۔ (کشاف ص ۲۹۲، تفسیر کبیر ج۶ ص ۱۲۸)

ان آیات واحادیث سے اسلامی قانون کا مزاج سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور عام انسانی مفادات کیلئے اس میں کتنی گنجائش ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے ۔

علاوہ ازیں اسلامی قانون میں جو جامعیت، ابدیت، معنویت، زندگی، نفاست وحس اور ہر دور کے حالات پر اس کی تطبیقی صلاحیت پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے اسی لئے ہر زمان ومکان میں اسی کو قیادت کا حق بنتا ہے ۔

اسلامی قانون کے اس امتیاز کو درج ذیل عنوانات کے تحت سمجھا جاسکتا ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next