غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



نفسیات سے متعلق ایک نکتہ

ایک نکتہ اس جگہ پر بہت اہم ہے وہ یہ کہ انسان ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ پہلے کسی چیز کی خوبی اور اچھائی کے بارے میں دلیل کو تلاش کرے اور جب دلیل مل جائے تو اس چیز کو اختیا رکر لے بلکہ کبھی کبھی مسئلہ اس کے بر خلاف ہوتا ہے یعنی پہلے کوئی چیز انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کو اچھی لگتی ہے ،اس کے بعد اس کے اچھے ہونے یا صحیح ہونے پر دلیل لاتا ہے؛ اس طرح کے موقعوں پر انسان اپنے دل کی حرکت کا تابع ہوتا ہے کبھی تو یہ اچھی اور صحیح چیز ہوتی ہے اور کبھی کبھی غلط ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ پہلے ان کا دل کسی چیز کو قبول کر لیتا ہے اس کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی عقل کو دل کے ساتھ ہماہنگ کرلیں؛یعنی اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے دلیل لاتے ہیں ۔یہ بات بہت سے ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو کہ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)پر ایمان لائے تھے؛ بہت سے لوگ ایسے نہیں تھے کہ پہلے تحقیق کریں اور اسلام کے اعتقاد کی تلاش و جستجو کریں اور جب تحقیق و جستجوکرلیا ہو اور توحید و خدا کی حقانیت ان کے لئے ثابت ہو گئی ہو تب ایمان لے آئے ہوں ؛بلکہ انھوں نے صرف رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)کی رفتار اور ان کے اخلاق کو دیکھا تو ان کے دل نے کہا کہ وہ بھی آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی طرح ان کے ساتھ ہوںلہٰذاوہ ان کے ساتھ ہوگئے ؛پہلے ان کے دل نے قبول کیا اس کے بعد پھر اس پر دلیل پیش کی ۔یہ بات باطل میںبھی پائی جاتی ہے ؛یعنی چونکہ انسان ایک غلط چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے اور اس کا دل اس کو چاہتا ہے تو وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ کرے؛ بہت سے لوگوں نے گناہ ،اور برائی کی عادت کر لی ہے ان کا دل چاہتا ہے کہ ہر طرح آزاد رہیں ؛اور جس چیز کا بھی دل چاہے اس کو انجام دیں ؛ظاہر سی بات ہے ایسے لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حساب و کتاب اور قبر و قیامت ہو؛ان کا دل اس بات کو گوارانہیں کرتا اور نہ اس بات کو قبول کرتے ہیںکہ ان کی عمر کا ہر لمحہ اور ان کی زندگی کا چھوٹا سا عمل بھی کسی کے زیرنظر رہے، اور ہر چیز کے بارے میں سوال و جواب ہوگا اسی لئے ان کا دل چاہتا ہے کہ حساب و کتاب نہ ہو ؛اور ان خواہشوں کے لئے انسان کوشش کرتا ہے کہ قیامت اور آخرت کے انکار کے لئے دلیل تلاش کرے، قرآن میں اسی سے متعلق خدا فرماتا ہے : '' ایحسب الانسان ان لن یجمع عظامہ بلیٰ۔۔۔'' (١)کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں گے؟ یقیناًہم تو اس بات پر بھی قدرت رکھتے ہیں کہ ان کی انگلیوںکے پور کو بھی از سر نو ویسے ہی درست کر دیں؛ بلکہ انسان تو فقط یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے وہ انسان جو قیامت کا انکار کرتا ہے واقعاً کیا وہ فکر کرتا ہے کہ ہم اس کو دوبارہ زندہ نہیں کر پائیں گے ؟ اگر وہ تھوڑی سی بھی فکر کرے اور عقل وفہم سے کام لے تو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا کیا دوبارہ اسی انسان کو زندہ نہیں کر سکتا ہے یقیناًیہ کام پہلے سے زیادہ آسان ہے چونکہ شروع میں انسان کچھ بھی نہیں تھا اور خدا نے اس کو پیدا کیا اور اب تو کم سے کم گوشت اور ہڈیّ تو ہے اگرچہ بوسیدہ اورسڑ گل گئی ہیں لہذٰا انسان کی عقل اس بات کو آسانی سے قبول کر لیتی ہے کہ جس ہاتھ نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی قدرت دوبارہ اسی بوسیدہ اور سڑی گلی ہڈیوں اورگوشت کو جمع کر کے زندہ کر سکتا ہے، لہذٰا قیامت کے منکر اس حد تک اپنی بات پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ وہ صرف اس لئے کہ'' بل یرید الانسان لیفجر امامہ''یعنی انسان چاہتا ہے کہ آزاد رہے کسی کی قید و بند میں نہ رہے ،بلکہ اسکو اس بات کی بھی آزادی حاصل رہے کہ جس گناہ اوربرائی کو بھی اس کا دل چاہے اس کو انجام دے ؛اور اس کے کام میں کوئی بھی حساب و کتاب نہ ہو ،بس اس جگہ پہلے اس کے دل نے فتویٰ دیا کہ آخرت اور قیامت وغیرہ نہیں ہے اس کے بعد اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بات پر دلیل لائے اجتماعی مسائل اکثر ایسے ہی ہیں کہ جن میں بجائے اس کے کہ دل عقل کے پیچھے ہو ،عقل دل کے پیچھے چلتی ہے ۔ اس کا زندہ ثبوت ہمارے زمانہ میں پایا جارہا تھا وہ مرکس ازم کی طرف لوگوں کا رجحان اور اعتقاد تھا ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے پہلے جاکر ماٹریالزم اورڈیا للٹک کے اصول پر بحث اور جستجو کی ہو اور دلیل و برہان سے ان کے لئے ثابت ہوا ہو کہ مادہ کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے اورمارکسی اقتصاد اور اس سے متعلق سارے مسائل صحیح اور درست ہیں ۔میں خود ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ مسلمان نمازی اور روزہ دار تھے لیکن مارکسسٹ تھے اور ان کی فکر تھی کہ یہ دونوں چیزیں (اسلام اور مارکس ازم) جمع ہو سکتی ہیں ۔ آخر ان لوگوں نے مارکیزم کی طرف رجحان کیوں پیدا کر لیا تھا ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے سماج اور عوام کے درمیان ظلم و ستم اور دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی کو دیکھا وہ اس بات کو دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ دولت کی زیادتی کے سبب اس بات سے لا علم تھے کہ اس کو کس طرح سے خرچ کیا جائے ،اس کے مقابلے میں کچھ لوگ بہت ہی فقیری اور مفلسی میں زندگی بسر کر رہے تھے اس وقت ان لوگوں نے سوچا کہ یا تو سرمایہ داری کو قبول کر لیں یا مارکس ازم کو قبول کر لیں ،سرمایہ داری کا انجام معاشرہ میں یہی واضح اور افسوسناک طبقاتی فاصلہ تھا .

..............

(١) سورہ قیامت : آیہ ٣ الیٰ ٥ ۔

 

لہذٰا ان لوگوں نے مارکس ازم کو قبول کر لیا ؛اس کے بعد مارکس ازم کو قبول کر لیتے تھے تو رفتہ رفتہ علمی اصطلاح میں مارکس ازم کے لئے دلیل بھی تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ماٹریا لیزم اور مادہ کی اصالت کو قبول کر لیتے تھے پلورالزم کے بارے میں بھی بعض جگہوں پر اکثر لوگوں کی ا یسی ہی کہانی ہے پہلے ان کے ذہن میںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو کس طرح قبول کریں کہ تمام کے تمام لوگ جہنم میں جائیں گے اور بہت کم ہی لوگوں کو نجات حاصل ہوگی ؟ ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ،ایک ایسا راستہ اختیار کریں کہ دوسرے لوگ بھی جنت میں جا سکیں ۔ اس فکر کے پیچھے ان لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا کہ' 'سارے دین حق پر ہیں '' اور اس بات کی کوشش کی کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل بنائی جائے ۔

کون سا فلسفی اور معرفت شناسی کا مبنیٰ پلورالزم کی طرف منتہی ہوسکتا ہے

لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ شروع میں ایک خاص فکری اور فلسفی مبنیٰ اختیار کرتے ہیں اور اسی مبنیٰ اور اصول کی بنیاد پر پلورالزم تک پہونچتے ہیں، یہ نہیں کہ پہلے ان کے دل نے اس بات کو چاہا ہو پھرعقل نے دل کی بات کو مانا ہو اور عقل نے دل کے پیچھے حرکت کی ہو۔ اس جگہ ہم اس بات کا جائزہ لیںگے کہ وہ کون سے فلسفی مبنیٰ ہیں کہ اگر انسان ان سے شروع کرے تو پلورالزم تک پہونچ سکتا ہے؟

واقعیت کو جاننے اور حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ عقل ہر چیز کی حقیقت کو واضح اور کشف کر سکتی ہے توفطری طور سے ایک ہی مسئلہ میں وہ متعدد حقائق کو قبول نہیں کرے گا ؛ایسا شخص فطری طور پر حقیقت کو ایک ہی چیز جانتا ہے اور پھر چاہتاہے کہ اور اس ایک حقیقت کو دلیل و برہان سے حاصل کرلے ۔ اگر اس کو ایک حساب یا فیزکس کا سوال دیں تو وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کا صحیح جواب صرف ایک ہی ہوگا ؛اگر وہ شخص جواب حاصل کر لیتا ہے تو جانتا ہے کہ یہ جواب یا تو صحیح ہوگا یا غلط ؛یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے کئی جواب صحیح پائے جاتے ہوں ۔

لیکن اگر کوئی حقیقت کی شناخت کے مسئلہ میں اس بات کا اعتقاد رکھتا ہو کہ انسان کے پاس واقعیت تک پہونچنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے جس وسیلہ کو بھی ،چاہے وہ عقل ہو یا تجربہ ،استعمال کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقت سے قریب ہو سکتا ہے لیکن واقعیت تک نہیں پہونچ سکتا ،اسی جگہ پر مختلف قسم کے نظریوںجیسے نسبیت، شکّاکیت اورپلورالزم وغیرہ میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے ۔ آج اس نظریے کے طرفدار اور حامی پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ حقیقت ، انسان کی معرفت وعقل اور اس کے علم سے بالاترہے، انسان جس قدر بھی کوشش کرے وہ واقعیت کے صرف چند آثار کو حاصل کر سکتا ہے اور حقیقت کے کچھ ہی پہلو اور وجہیں اس کے لئے واضح اور ظاہر ہوتی ہیں ،پوری حقیقت کو حاصل نہیں کر سکتا ۔دنیا کے مختلف مکاتب فکر جیسے مکتب کانٹ،نیو کانٹ،شکّاکیت اور نسبیت اس جہت میں مشترک نظریہ رکھتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ''ہم کبھی بھی واقعیت کو مکمل طور سے درک نہیں کر سکتے ''۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next