غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



بہر حال اگر تاریخی سیر سے ہٹ کر ہم دیکھیں گے تو ان دونوں مفہوموں کے درمیان وہی رابطہ ہے جیسا کہ وضاحت کی گئی ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اگردیکھیںتو پتہ چلتا ہے کہ ظاہراً''لیبرالزم ''کی فکر ''پلورالزم ''یہاں تک کہ ''سیکولرزم ''پر بھی مقدم ہے ۔

دینی پلورالزم کی پیدائش کے اسباب پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسات میں پلورالزم کے نظریہ کے پیدا ہونے میں جو اسباب و علل ذکر ہوئے ہیں ان کی طرف اشارہ کیا گیا؛ ان وجوہات میں جن کو ذکر کیا گیا تھا سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اختلافات دینی کے سبب جو فساد اور خون ریزیاں ہوتی ہیں اس کودینی پلورالزم کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ فکر سب سے پہلے مسیحی مذہب میں پیدا ہوئی ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں جب ایک جرمن کشیش ''مارٹن لوتھر''نے مسیحی مذہب میں پروٹسٹان فرقے کو ایجاد کیا اور بہت سے عیسائیوں نے اس میں اس کی اتباع اور پیروی کی تو اس کے بعد کاتھولیک اور پروٹسٹان میں بہت ہی شدید لڑائی چھڑگئی اور یہ سلسلہ جاری رہا اور آج بھی بہت سے ممالک جیسے ایرلینڈ وغیرہ میں یہ فساد ہوتا رہتا ہے؛ اس سے قبل بھی عیسائی مذہب کے دو فرقوں ارٹڈوکس اور کاتھولیک میں جھگڑا پایا جاتا تھا بہت سے مسیحی علماء اور متکلمیںنے ان فرقوں کے درمیان جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے مسیحیت میں پلورالزم نظریہ کو پیش کیا ؛اور ان لوگوں نے کہا کہ بس صرف مسیحی ہونانجات کے لئے کافی ہے اور ارٹڈوکس،کاتھولیک،پروٹسٹان وغیرہ میں کوئی بھی فرق نہیں ہے ۔

اس کے بعد مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان جودیرینہ جنگ اور دشمنی پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے دینی پلورالزم کا نظریہ پیش ہوا ؛اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ یہ دشمنیاں ختم کی جائیں مثلاً مسیحی مناسک و اعمال خاص کر کاتھولیک مذہب میں ایک رسم پائی جاتی ہے جس کو ''عشائے ربانی ''کہتے ہیں ؛اس کو گویا مسیحیوں کی نماز کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگااس میں خاص دعا اور ذکر ، پڑھا جاتا ہے وہ چیز جو اس پروگرام یعنی ''عشائے ربانی'' میں پڑھی جاتی تھی یہ تھی کہ یہودیوں پر اس اعتبار سے کہ وہ حضرت مسیح کے قاتل ہیں لعنت کی جاتی تھی ۔جس وقت یہودی خاص طور سے صہیونی لوگ بعض سیاست کے سبب اس بات میں کامیاب ہوئے کہ ان لوگوں نے یورپ میں طاقت حاصل کی تو واٹیکان اس بات پر مجبور ہوا کہ کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ رسمی اور قانونی طور پر اس بات (بعنوا ن قاتل مسیح یہودیوں پر لعنت ) مسیحیوں کی نماز،عشائے ربانی سے حذف کردیا جائے اور مسیحی علماء نے فتویٰ دیا ؛کہ اب اس کے بعد'' عشائے ربانی ''کے مراسم میں یہودیوں پر لعنت نہیں کی جائے گی ؛اگر چہ کچھ مدت تک عشائے ربانی میں یہودیوں پر لعنت بندرہی لیکن پھر بھی مسیحی ،یہودی قوم کو حضرت مسیح کا قاتل سمجھتے رہے یہاں تک کہ شاید آپ نے ان آخری دنوں میں اس بات کو سنا ہوگا کہ پاپ نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ مسیحی اس اعتقاد کو اپنے ذہن اور دل سے بھی نکال دیں؛ اور اس کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم یہودیوں سے صلح و دوستی کرنا چاہتے ہیں اور اب وہ وقت دور نہیںرہ گیاہے کہ جناب پاپ سرکاری طور پر مقبوضہ فلسطین( اسرائیل) میں جاکروہاں یہودیوں کے سربراہوںسے ملاقات کرنے والے ہیں ۔

بہر حال آگے چل کر مسیحیوں نے اس سیاست کو دنیا کے تمام مذاہب میں جاری کرنا چاہا؛ اور کہا کہ ہم کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب سے دینی اعتقادات کے مسئلہ میں جنگ و خونریزی نہیں کریں گے اور ہم سبھی مذہب کو قبول کرتے ہیں؛ یہاںتک کہ بہت سے عیسائیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اسلام مسیحیت سے اچھا دین ہے اور کھلے عام اس کا اعلان بھی کیا ؛لیکن کہا کہ بہر حال مسیحیت بھی ایک اچھا دین ہے ۔

یہاں تک زیادہ تاکید آپس میں مل جل کر رہنے اور دینی اعتقادات اور مذہبی اختلاف کے سبب جنگ و خونریزی سے پرہیز کرنے پر تھی ؛ہم نے اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا کہ اسلام نے اس طرح کے عملی پلورالزم کو تمام آسمانی مذاہب اور اہل کتاب حتیٰ بعض غیر اہل کتاب کے درمیان قبول کیا ہے اور اس کو رسماًپہچانا ہے اور ان تمام لوگوں کے جان و مال عزت و آبرو کو مسلمانوں کی طرح قابل احترام جانا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا تھاکہ'' پلورالزم '' فقط عملی پلو رالزم میں منحصر نہیں ہے بلکہ ا س نظریہ کی معتقدین نے اس کو نظری اور فکری پلورالزم تک وسعت دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو نہ فقط عمل میں لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے بلکہ نظری اور فکری اعتبار سے بھی اس بات کو قبول کریں کہ تمام دین صحیح اور حق ہیں اور جو کوئی بھی ان میں سے کسی دین کا معتقد ہو اور اس کے دستورات اور احکام پر عمل کرے وہ کامیابی حاصل کرے گا اور اس کا اعتقاد و عمل قابل قبول ہوگا؛ البتہ اس بات کو ہم کس طرح قبول کر سکتے ہیں؟جب کہ ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سارے ادیان میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے ہم کس طرح ان سبھی کو حق اور صحیح جانیں؟ اس کی مختلف تفسیر پچھلے جلسوں میں میںنے پیش کی اور ان کے بارے میں مفصّل بحث و گفتگو کی یہیں سے میں چاہتا ہوں کہاس جلسہ کی بحث کے دوسرے حصہ کوشروع کروںیہ اسسوال کا جواب ہوگا جو کہ چند جلسہ پہلے پیش کیاگیا تھا ۔

ایک عالمی دین کی بنیاد

سوال یہ ہے کہ کون چیزاس بات سے مانع ہے کہ ہم کہیں تمام دینوں میں کچھ چیزیں مشترک پائی جاتی ہیں ہم پہلے ان مشترکات کو پہچانیں پھر ان کو منظّم کر کے ایک عالمی دین کی صورت میں پیش کریں اور کہیں کہ دین کی حقیقت یہی مشترک مجموعہ ہے جو تمام ادیان میں مشترکہ طورسے پایا جاتا ہے اور جو اختلافات ان کے درمیان ہیں وہ فرعی اور ذوق و سلیقہ کاپہلو رکھتے ہیں اور ان کاہونا اور نہ ہونا اصل دین میں کوئی نقصان نہیں پہونچاتا ہے دین کی اصل یہی مشترکات ہیں اور اختلافات تو شاخ اور پتے کے مثل ہیں جن کو انسان اپنے ذوق اور سلیقے اور پسند کے مطابق اختیار کرتا ہے گویا یہ دینی پلورالزم کی چوتھی تفسیر ہے نظری اور فکری اعتبارسے یہ ان تینوں تفسیر کے علاوہ ہے جس کوہم نے پہلے جلسے میں پیش کیا تھا یہاں پر اس کی تھوڑی تفصیل اور وضاحت پیش کی جاتی ہے اور اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔

ایک واحدعالمی دین کی تاسیس کی تحقیق

ہماری نظر میں یہ فرضیہ و خیال بھی متن اور مطلب کے لحاظ سے متناقض ہے اور صحیح نہیں ہے علاوہ اسکے یہ نظریہ اپنے ثبوت پر دلیل نہیں رکھتا۔علمی اور فنی اصطلاح میں یہ خیال ونظریہ ثبوتی اور اثباتی دونوں لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next