غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



یہ تو ان محدود ادیان کی بات تھی جن کو ہم نے آسمانی دین میں محصور کیا ہے، لیکن اگر اس سے آگے بڑھ کر دیکھیں جس کو آج کی اصطلاح میں دنیا والے دین کا نام دیتے ہیں ؛ تو حالت اس سے نھی زیادہ خراب نظر آئے گی ۔دنیا کا ایک بہت پرانا دین بدھشٹ ہے جسکے ماننے والے بہت زیادہ ہیں بودھ ازم اصلاً خدا کا اعتقاد نہیںرکھتے جو کچھ یہ دین کہتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس دنیاوی و مادی قید وبند اور لگائو سے دور رہنا چاہئے تاکہ وہ بلند وبالا مقام حاصل کر کے کمال پر پہنچ جائے، صرف اسی صورت میں وہ سارے رنج وغم سے چھٹکارا پا سکتا ہے اور مطلق طور پرخوشی اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے ۔

اس اعتقاد (خدا نہیں ہے)اور آسمانی ادیان کے نظریہ میں (خدا موجود ہے)کون سی اشتراک کی وجہ ہے ؟جس کو ہم اختیار کریں اور اسکو ایک عالمی دین کے عنوان سے انسانوں کے سامنے پیش کریں؟

اگر اس سے بھی آگے بڑھیں اور ''اگوسٹ کانٹ''کی طرح انسان کیخدا ہونے کے قائل ہوں؛ تو حالت اس سے بھی بدتر نظرآئے گی ،اگوسٹ کانٹ کہتا ہے''ہاں انسان دین چاہتا ہے لیکن وہ دین نہیںجو خدا،پیغمبر،وحی اورماوراء الطبیعت کی چیزیں رکھتا ہو؛ بلکہ وہ دین جسکا خدا خود انسان ہو، اور پیامبرعقل ہو، تمام موجودات کا محور انسان ہے اور تمام چیزوں کا قبلہ و معبودومسجود یہی انسان ہے اور تمام ہستی اور عالم وجود کو انسان کی چاہت اور خواہش کے مطابق ہونا چاہئے ۔

اب ہم دوبارہ سوال کریں گے کہ وہ دین جس کا معبود خود انسان ہویا وہ دین جس کا معبود جسمانی اعتبار سے محدود ہو او ر یعقوب کے ہاتھوں گرفتار ہو یا وہ دین جس میں گائے کو پوجا جاتاہویا وہ دین جو کہ اصلاً خدا کا اعتقاد نہیں رکھتا اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا دین جس کا معبود اللہ ہو ،جو لامحدود ہے اس کا کوئی ثانی نہیں اور وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، اب ان میں کس عالمی اور دنیاوی دین کو اختیار کیا جائے؟ اور اس حالت میں مشترک عالمی دین کی بات کرنا اور اس سلسلہ میں گفتگو کرنا خود ساختہ افسانے جیسا ہے ہے جو کہ کوئی حقیقت نہیںرکھتا ہے ؛اور اس کا کہنے والا مستی کے عالم میں ہے اور بے عقلی سے نزدیک ہے اور عالم عقل و ہو شیاری سے بہت دور ہے ] افلا یتدبرون [ کیا وہ لوگ غور و فکر نہیں کرتے؟سب سے پہلا اعتقاد جو کہ اصل دین ہے وہ خدا وند عالم کا اعتقاد ہے جب ہم اس پہلے ہی قدم پر اتنے واضح تناقضات اور مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اس وقت کیسے ہم ادیان کے درمیانذاتی مشترکات کے وجود کو قبول کریں(اور اختلافات کو عرضی سمجھیں )اور ایک عالمی دین کے عنوان سے اس کا اعلان کریں؟ یقینی طور پر ایسے ہی لاجواب اعتراضات کے موجود ہونے کی وجہ سے بعض ایرانی اہل قلم جو کہ اس نظریہ (عالمی دین کی طرف )رجحان رکھتے ہیں انھوں نے اپنے مضمون میں' 'ذاتی وعرضی دین''عنوان کے تحت دعویٰ کیاہے کہ خدا کا بھی اعتقاد دین کے لئے جوہری اور ذاتی نہیں ہے؛ بلکہ دین کے عرضیات سے ہے، ممکن ہے کوئی دیندار ہو، لیکن خدا کے وجود کا معتقد نہ ہو ! میں عرض کروں گا کہ اگر خدا نہ ہو تو فطری طور سے کوئی پیغمبر بھی نہ ہوگا ،جس کو وہ لوگوں کے لئے بھیجے گا ؛لہذاٰ انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ خدا اور پیغمبر کا اعتقاد نہ رکھے اس کے باوجود وہ دین بھی رکھتا ہو۔ اسی طرح چونکہ عبادات کے باب میں بھی واضح ہے کہ جو عبادت تمام ادیان میں مشترکہ طور سے پائی جاتی ہو اسکو ہم نہیں رکھتے ہیں؛ اگرچہ مثلاًنماز تمام آسمانی ادیان میں پائی جاتی ہے ؛لیکن اس کی ماہیت اور طریقے میں پوری طرح سے فرق پایا جاتا ہے ؛لہذٰا نہ مشترک خدا باقی رہ جاتا ہے اور نہ مشترک پیامبر و عبادت باقی رہ جاتی ہے ۔ پس وہ مشترک عناصر سارے ادیان میں کہاں ہیں جن پر ایک عالمی دین کے اعتبار سے ایمان لائیں اور ان کو اختیار کر کے ہم نجات حاصل کر لیں ؟

مشترکہ اخلاقی اصول کو ایک عالمی دین کے عنوان سے پیش کرنا

اس بات کے لئے کہ اس نظریہ کا پست اور باطل ہونا اچھی طرح واضح اور روشن ہو جائے، ہم بالفرض قبول کرتے ہیں کہ باوجودیکہ خدا ،نبوت اور امامت کے بارے میں ایک مشترک نتیجہ تک نہیں پہونچ سکے لیکن ممکن ہے کہ ایک عالمی دین کو ادیان کے اخلاقی مشترکات کی بنیادپر پیش کریں ،دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کوئی کہے کہ ایک عالمی دین اور ادیان کے درمیان مشترکات سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایک قسم کے اخلاقی اصول جیسے عدالت اچھی چیز ہے ، سچ بولنا ، امانت داری ،وغیرہ یہ سب اچھی چیز یں ہے جھوٹ بولنااور ظلم کرنا قبیح اور بری چیز ہے ان باتوں پر تمام ا دیان اور ان کے ماننے والے متفق ہیں؛ اور یہ تمام مشترکہ اخلاقی اصول ایک عالمی دین ہو سکتے ہیںکہ جس کی ہم کو تلاش ہے لہذا اس نظریہ پر کون سا اعتراض ہو سکتا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس تصّور کی بنیاد پر دین ،اخلاق کے مترادف ہو جائے گا یعنی دین و اخلاق ایک معنی میں ہو جائیں گے اورچند خالص اخلاقی اصول کے مجموعہ کو دین کا نام دینا یہ رائج اصطلاح کے خلاف ہے نیز عرف عام اور عقلاء کے نظریہ سے مختلف ہے؛ تمام لغت میں یہ وضاحت کے ساتھ تصریح کی گئی ہے کہ اخلاق، دین سے اور دین ،اخلاق سے جدا اورالگ ہے اور یہ دونوں لفظ الگ الگ معنی میں پائے جاتے ہیں ؛اور کسی بھی لغت اور زبان میں دین و اخلاق کو ایک معنی میں نہیںلیا گیا ہے؛ اس مطلب کی اور زیادہ وضاحت کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے بے دین اور لا مذہب افراد جو کہ کسی مذہب اور دین کا اعتقاد نہیں رکھتے ،ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ بہت سے اخلاقی اصول جیسے عدالت ،سچ ،امانتداری کے اچھے ہونے اور ظلم، خیانت،جھوٹ وغیرہ کے برے ہونے پراعتقاد رکھتے ہیں اور اس کے پابند ہیں؛ بہر حال سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اخلاقی اصول کو قبول کرنے اور دین کے قبول کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے اورکسی کے لئے ممکن ہے کہ چند اصول اخلاقی کو قبول کرتا ہو ۔دوسرے یہ کہلیکن کسی بھی دین و مذہب کا اعتقاد نہ رکھتا ہو؛ اگر ہم اس کو قبول بھی کرلیں کہ خدا ، نبوت ، قیامت کا اعتقاد اور عبادت وغیرہ کو انجام دینا یہ سب دین کی ماہیت اور شکل میں کوئی دخالت نہیں رکھتے ہیں اور دین فقط چند اخلاقی اصول کا نام ہے، تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین صرف چند اخلاقی اصول کے اعتقاد کا نام ہے یا اعتقاد کے علاوہ ان اصول پرعمل اور ان کی پابندی کا بھی نام ہے ؟ کیا دیندار وہی ہے جو کتاب ،مضمون اور تقاریر میں ان اخلاقی اصول کا دفاع اور ان کی حمایت کرے اگر چہ عملی طور پر اان کا پابند نہ ہو، یا اس ایک عالمی دین دینداراور متدین وہی لوگ ہیں جو کہنے کے ساتھ عمل کے میدان میں بھی ان اصول کی رعایت و پابندی کرتے ہوں ؟اگر یہ ایک عالمی دین صرف اعتقاد کا نام ہو اور اس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو؛آیا ایسا دین انسان کی زندگی پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے؟ ایسے دین کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ اگر صرف گفتگو اور زبان سے کہنے کا نام ہے تو ہر ظالم اور خطاکارسچاّئی، امانت داری اور عدالت کے بارے میں اچھا مضمون لکھ سکتا ہے اور بہترین تقریر کر سکتا ہے؛ کیا دینداری کی حقیقت یہی ہے ؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بغیر عمل کے اعتقاد کا نام دین نہیں ہوسکتا ہے اور ضروری ہے کہ اعتقاد کے علاوہ عمل کو بھی لازم قرار دیا جائے تاکہ اس اصطلاح کے مطابق اس کو دیندار کہنا ممکن ہو سکے ۔

یہیں پرایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص خدا، پیغمبر ، وحی اور حساب و کتاب کا یقین اور اعتقاد نہیں رکھتا توکون سی وجہ ہے جو اس کو جھوٹ بولنے سے روکتی ہے ،اور کس بات کی ضمانت ہے کہ وہ خیانت نہ کرے اور عدالت کو اختیار کرے ؟

ایک بحث جو کہ آخری صدیوں میں سامنے آئی ہے اور بعض لوگوں نے اس کی حمایت کی ہے یہی اخلاق اور دین کے درمیان جدائی کا مسئلہ ہے یعنی بغیردین کے اخلاق ہونا چاہئے ۔ اس نظریہ کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ جو چیز انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے یہی اخلاق اور اس کے فوائد ہیں؛ دین ہماری زندگی پر کچھ بھی اثر نہیں ڈالتا ہے ،لہذٰا ہم اخلاق اور اس کے اصول کو جو کہ مقام عمل میں اثر رکھتا ہے، قبول کرتے ہیں لیکن دین سے کوئی بھی واسطہ نہیں رکھتے ہیں ۔ یہی وہ طریقہ فکر ہے جو کہ بعض لوگوں کے ذہن میں پایا جاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو انسان ہونا چاہئے ا کون سے دین پر ہیں یا اصلاً دیندار ہیں بھی کہ نہیں ؟ یہ بات کچھ اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔ میں خود اسی تہران میں دو آدمیوں کے درمیان بات چیت کا گواہ ہوں کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ فلاں آدمی بہت اچھا ہے نماز پڑھتا ہے (یعنی نمازی ہے ) اس کے دوست نے جواب دیا کہ میرا عقیدہ اور نظریہ یہ ہے کہ آدمی کو اچھا ہونا چاہئے چاہے نمازی ہو یا بے نمازی ؛یہ نظریہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو اخلاق کو بغیر دین کے قبول کرتا ہے ؛اس کی بنیاد پر اچھا ہونا یعنی اخلاقی اقدار کی رعایت کرنا ،اچھا ہونا یعنی باادب، باوقار اور سنجیدہ ہوناہے، دیندار ہونا یا بے دین ہونا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اور اس نظریہ پر بہت سے اعتراض پیش آتے ہیں ؛جس کی طرف فلسفہ اخلاق کے مباحث میں تفصیل کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next