غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



دینی پلورالزم کے نظریہ کے مقابلہ میں (اسکی مختلف تفسیروں کے ساتھ ) ایک دوسرا اعتقاد یہ بھی ہے کہ مکمل طور سے کچھ دینی اعتقادات ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو کہ سب کے سب حق اور صحیح ہیں اور اس کے مخالف اعتقادات باطل اور نا حق ہیں ؛یہ نظریہ اس بات کا معتقد ہے کہ حقیقت ایک ہے اور اس شخص اور اس شخص اس معاشرہ اوراس معاشرہ ،اس زمانے اور اْس زمانے میں کوئی بھی فرق نہیں ہے ۔اس اعتقاد کی بنیاد پر ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم افکارواقدار احکام کا مجموعہ رکھتے ہوں جو کہ سب کے سب حقیقت رکھتے ہوں اور اس مجموعہ کے علاوہ دوسر ے بقیہ مجموعہ باطل اور ناحق ہیں یاان میں سے ہر ایک میں حق اور باطل دونوں پائے جاتے ہیںجو چیز ہم شیعوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے وہ یہی ہے اگر آپ عام افراد کو دیکھئے تومعلوم ہوگا کہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ فقط شیعہ مذہب صحیح ہے اور یہی مذہب حق ہے؛ اوریہ وہ مذہب ہے کہ جس کامنبع اور سر چشمہ اھل بیت علیہم السلام اورچہاردہ معصومین ہیں اس کے علاوہ باقی جو مذہب اور ادیان پائے جاتے یا پوری طرح سے باطل ہیں ؛یا جس مقدار میں ان کے عقائد شیعہ مذہب کے مخالف ہیں اتنا وہ باطل ہیں ۔یہ ایسی چیز ہے جو ہماری اور آپ کی فکر میں پائی جاتی ہے ۔اور پلورالزم کی فکر کے پیش ہونے سے پہلے کوئی بھی دین و مذہب کی حقاّنیت سے متعلق اس تصویر کے علاوہ کچھ اور نہیں خیال رکھتاتھا۔

مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف کا پلورالزم سے کوئی ربط نہیں ہے

جو سوال اس جگہ ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ مذہب شیعہ میں بھی چاہے وہ اعقادی مسائل ہوں یا فقہی احکام،بہت جگہوں پر کئی نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ان اختلافات کے رہتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ ان احکام و عقائد کے ایک مجموعہ کو شیعہ مذہب کی طرف (جو کہ حق ہوں ) نسبت دیا جائے؟ شیعہ علماء اور مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو سبھی لوگ جانتے ہیں مثلاً ایک مرجع تقلید کا فتویٰ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کہنا کافی ہے دوسرا مرجع یہ فتویٰ دیتا ہے کہ ٣ مرتبہ کہنا ضروری ہے، یا عالم برزخ کے مسائل سے بعض امورمثلاً پہلی رات مرنے کے بعد کیا سوال وجواب ہوگا اس کے علاوہ دوسرے مسائل جس میں اختلاف واضح ہے جو کہ قیامت سے مربوط ہیں ؛ان کی تفصیلات میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نظریہ حق ہے اور کون سا باطل ہے ؟یہ شرعی مسئلہ ہے کہ اعلم کی تقلید کرنا چاہئے، لیکن اعلم کی تشخیص اور پہچان میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور ہر شخص مخصوص آدمی کو اعلم جانتا ہے اور اسی کی تقلید کرتا ہے ۔لیکن بہر حال ایسا نہیں ہے کہ فقط ایک ہی مرجع کے مقلدین جنت میں جائیں گے؛ بلکہ جس نے بھی کسی مجتہد کو واقعی طور پر اعلم سمجھا اور اس کی تقلید کی اس کو نجات ملے گی اور وہ جنت میں جائے گا ؛اس جگہ پر جو شبہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اگرمختلف ادیان کے درمیان بہت سے سیدھے راستوں کو قبول نہ کیا جائے تو کم سے کم شیعہ مذہب کے اندر مختلف سیدھے راستوں کے ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا؛ اور مختلف عقائد و احکام کے مجموعہ کو صحیح اور حق پر ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا لہذٰا اس طرح سے بھی اس کی انتہا پلورالزم ہی کی طرف ہوگی ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مقام ثبوت اور مقام اثبات میں خلط ملط ہو گیا ہے؛ جنت میں جانے اور اسلام کے واقعی اور حقیقی حکم کو حاصل کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے ۔ جو کچھ بھی علماء دین کی تقلید کے بارے میں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ اگر آپ نے کسی مجتہداعلم کو مشخص کر لیا اور اس کی تقلید کرلی ؛تو اگر اس کے بعض فتوے خدا کے حکم واقعی کے مخالف بھی ہو جائیں تو آپ اس میں معذور ہیں اور حکم واقعی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آپ جہنم میں نہیںجائیں گے ؛تسبیحات اربعہ کے مسئلہ میں حقیقت اور واقعیت ایک ہی ہے؛ حکم خدا وندعالم یا یہ ہے کہ ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کافی ہے یا یہ کہ ٣ مرتبہ واجب ہے ، جس فقیہ اور مجتہد کا فتویٰ خدا وندعالم کے حکم کے مطابق ہواسی فقیہ کا فتویٰ صحیح اور درست ہے اور بقیہ مجتہدین کا غلط ہوگا لیکن یہ غلطی ایسی ہے کہ اس سے مجتہد اور اس کے مقلدین دونوں معذور ہیں چونکہ ان لوگوں نے حکم خدا تک پہونچنے کی پوری کوشش کی؛ اور اپنے فریضہ کو انجام دیا ؛لیکن کسی بھی سبب سے وہ اس تک نہیں پہونچ سکے یہاں یہ مسئلہ مستضعف فکری جیسا ہے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے ۔

اسلام کے قطعی اور واضح احکام میں اختلاف کا نہ ہونا

ہم اسلام میں کچھ یقینی، پائدار، مطلق اور نہ بدلنے والے حقائق رکھتے ہیں جن کو عرف عام میں ''ضروریات اسلام''کہا جاتا ہے کبھی ان حقائق کا دامن اور میدان وسیع ہوتا ہے تو ان کو اسلام کے مسلمات اور قطعیات سے یاد کیا جاتا ہے، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ تمام مسلمانوں کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ک۔مثلاً تمام مسلمان جانتے ہیں کہ صبح کی نماز دو رکعت ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس کے لئے تقلید ضروری نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کی تحقیق و جستجو کریں بلکہ یہ واضح اور بدیہی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ اسلام کے واضحات میں تقلید نہیں ہے ؛یہاں تک کہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قطعیات اور مسلمات دین میں بھی تقلید جائز نہیں ہے؛ تقلید صرف ظنےّات(جن کے بارے میں یقین نہ ہو )میں صحیح ہے ۔ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ صبح کی نماز ٢ رکعت ہے اور نماز کے واجب ہونے کا مسئلہ ایسی چیز ہے کہ اس کا صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کافر بھی (جو کہ اسلام اور نماز کو قبول نہیں کرتے ہیں )جانتے ہیں کہ اسلام نماز کا حکم دیتا ہے اور نماز اسی رکوع اور سجدے اور بقیہ تمام افعال واذکار کا نام ہے ۔ آج کون ایسا ہے جو اس بات کو نہ جانتا ہو کہ مسلمانوں کا حج ذی الحجہ کے مہینہ میں مکہ جاکر کچھ اعمال کو انجام دینا کہلاتا ہے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نماز اور حج اسلام کا جزنہیں ہے تو اس کی بات قبول نہیں کی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ سب اسلام کے واضحات اور مسلمات سے ہیں ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اورہر زمان ومکان میں ان کا انجام دینا ضروری ہے اور وہ ناقابل تغییر ہیں یہاں تک کہ ان کے متعلق تقلید بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ہر مسلمان اس بات کو جانتا ہے اسی وجہ سے اسلام کے ضروریات اور واضحات سے انکار کرنا مرتد ہونے کا سبب بنتا ہے البتہ امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ ضروریات اسلام کا انکار، ارتداد کا سبب اس وقت بنتا ہے جب اس کا انکار رسالت کے انکار کا باعث ہو لیکن بعض فقیہ اس شرط کو لازم نہیں جانتے ہیں؛ اور کہتے ہیں کہ' ' اسلام کے واضحات کا انکار،مطلق طور پر ارتداد کا سبب بنتا ہے ''۔

دین اسلام کے ظنیات میں اختلاف اور اس کی وضاحت

اب یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کے جو احکام و عقائد واضح اور قطعی ہیں ان میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہے اور ان میں کوئی شک وشبہہ نہیں پایا جاتا ہے اور جو کوئی بھی ان کو قبول نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔بعض احکام اسلام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو کہ ظنیّ ہیں، اسلام کے جو احکام ظنی ہیں ان کے بارے میں اہل نظر اور مجتہدین ممکن ہے الگ الگ نظریہ اور فتویٰ رکھتے ہوں اب جو لوگ مجتہد نہیں ہیں عقلی اور نقلی دلیل کی بنیاد پر ان کا وظیفہ یہ ہے کہ مجتہدین کی طرف رجوع کریں اوران کی تقلید کریں ،تقلید کا مطلب ہے غیر متخصّص کا متخصّص(اس فن کے ماہر) کی طرف رجوع کرنا جو کہ ایک عام قاعدہ ہے اور صرف دینی مسائل اور احکام سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر میدان اور شعبہ میں جو شخص نہیں جانتاوہ جاننے والے کی طرف رجوع کرتا ہے مثلاًاگر آپ بیمار ہیں تو بیماری اور اس کی تشخیص کے لئے ماہر ڈاکٹر کی جانب رجوع کرتے ہیں ، دینی احکام میں بھی لوگ متخصصّین و ماہرین جو کہ مراجع عظام ہیں ،ان کی جانب رجوع کرتے ہیں؛ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے البتہ یہ طبعی اور فطری امر ہے کہ جب مراجع تقلید کے فتوے مختلف ہوتے ہیں تو جو لوگ ان کی تقلید کرتے ہیں ان کے عمل میں بھی اختلاف ہوتا ہے ؛لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ مراجع عظام کے فتووں میں اختلاف ڈاکٹروں کے نسخوں میں اختلاف جیسی بات ہے ؛اگر دو ڈاکٹر کسی ایک بیمار کے بارے میں الگ الگ تشخیص رکھتے ہوں تو اگر دونوں غلطی پر نہیں ہیں تو کم سے کم ایک ضرور غلطی پر ہے ؛اسی طرح سے ایک ڈاکٹرکے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کے تمام نسخوں میں غلطی نہ ہو تو کم سے کم سیکڑوں نسخوں کے درمیان ایک میں غلطی ضرور ہوگی، مراجع تقلید بھی اگر کسی مسئلہ میں الگ الگ نظریہ رکھتے ہوں تواگر سب کے نظریات غلط نہ ہوں تو یقینی طور پر کسی ایک کا نظریہ صحیح ضرور ہوگا اور بقیہ کا غلط ہوگا ؛ اسی طرح ایک فقیہ کے سیکڑوں فتوے جو کہ وہ دیتا ہے ایک نہ ایک فتوے میں غلطی کا امکان رہتا ہے، اگر چہ ایسا ہے، لیکن پھر بھی کیا کیا جائے اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے جب ہماری رسائی اور پہونچ معصوم تک نہیں ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں ہے کیا چند نسخے جو ڈاکٹر لکھتے ہیں ان میں غلطی ہونے کی وجہ سے پوری ڈاکٹری کے شعبہ کو بند کر دیا جائے ؟ظاہر سی بات ہے کوئی بھی عقلمند انسان اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیگا ۔

لہذا اگر اسلام میں پلورالزم سے مراداسلام کے ظنّیات میں علماء ومجتہدین کے فتووں کا اختلاف ہو تو یہ چیز مسلم اور قابل قبول ہے ۔ ظنیات کے حدود میں اہل نظرکے درمیان اختلاف ممکن ہے اور ہر شخص اس مجتہد کے فتوے پر جس کو اس نے اعلم سمجھا ہے عمل کر سکتا ہے ؛اور کسی بھی مجتہد سے یہ نہیںکہا جا سکتا کہ آپ کا نظریہ پوری طرح سے غلط ہے ؛چونکہ ہم نے یہ فرض کیاہے کہ یہ امور ظنی ہیں اور ہم اس کی واقعیت اورحقیقت کو نہیں جانتے ہیں ۔ البتہ اظہار نظر میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ شخص دینی مسائل میں متخصّصو ماہر اور صاحب نظر ہو؛ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ مسئلہ ظنّی ہے لہذاجو کوئی بھی ہو اورتھوڑا بہت بھی جانتا ہووہ کہنے لگے کہ میرا نظریہ یہ ہے ۔کیا وزارت حفظان صحت کے افراد ہر شخص کو مطب اوردوا خانہ کھولنے اور ڈاکٹری کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟جواب نہیں میں ہوگا ۔

بہر حال اگر کوئی اس کا بھی نام پلورالزم رکھے تو ہم کہیں گے کہ ہاں دین اسلام میں بھی پلورالزم ہے؛ لیکن یہ بات یاد رہے کہ کسی نے بھی پلورالزم کی تفسیر اس معنی میں نہیں کی ہے ؛اس لئے کہ پلورالزم یعنی حقیقت یا اس تک پہونچنے کا راستہ متعدداور الگ الگ ہے ،جبکہ ہم نے مجتہدین کے نظریوں میں اختلاف کے متعلق کہا ہے کہ حقیقت اور حکم خدا وندعالم فقط ایک ہی ہے اب اگر کوئی مجتہد حکم خدا وند عالم کو جو کہ حقیقی حکم ہے حاصل کر لے تو اس کا نظریہ صحیح ہے اور اگر حکم واقعی کے علاوہ اس کا فتویٰ ہے تو یقینی طور پر وہ غلط اور نا درست ہے لیکن اس مقام پرجیسا کہ اس سے قبل کہہ چکا ہوں مرجع تقلید اوراس کے مقلدین اس طرح کے حکم میں معذور ہیں؛ لہذٰا اس کا نام پلورالزم نہیں رکھا جا سکتا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next