غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



اس فلسفی مبنیٰ کی بنیاد پرکہ جھوٹ اور سچ نسبی ہیں یعنی تمام خبریں واقعیت کے فقط کچھ حصّہ کو ہی بتاتی ہیں اور حقیقت کی ایک نسبت کو واضح کرتی ہیں اور جو خبریں سو فیصد حقیقت کو بتاتی ہوں وہ پائی ہی نہیںجاتی ہیں ۔تمام علمی خبریں بھی اسی خصوصیت کی حامل ہیں اور اصلاً علم کی ماہیت اس کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں ہے ۔ہم یہ تصور نہ کریں کہ علم آکر کہے گا کہ ''فقط یہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ''ہر گز نہیں علم نہ ایسا دعویٰ کرتا ہے اورنہ ایسا کبھی ہو سکتا ہے ۔ علمی نظریہ میں بات صرف تائید اور ابطال کی ہوتی ہے ،نہ کہ حقیقت کے کشف ہونے یا کشف نہ ہونے کی ۔ زیادہ سے زیادی علمی نظریہ کا دعویٰ اور ادّعا یہ ہوتا ہے کہ جب تک مجھ پر کوئی اشکال یا نقض نہ آجائے مجھ کو حق ہونے کی تائید حاصل ہے اور اگرکوئی اعتراض ہوگیا تو میں باطل ہو جائوں گا اور دوسرا نظریہ میری جگہ لے لے گا یہ سیر و روش اسی طرح آگے بڑھتی رہتی ہے اور علمی نظریات ایک کے بعد دوسرے مکمل ہوتے رہیں گے اور علم میں کوئی ایسا نظریہ ہی نہیں پایا جاتا جو کہ ہمیشہ باقی رہے اور قائم و ثابت رہ جائے ۔

جو لوگ معرفت شناسی اور اس کے اقدار کی بحث میں اس فکر کی تائید کرتے ہیں اور اس کے طرفدار ہیں وہ لوگ منطق وفلسفہاور معقولات و الھٰیات کو ایک طرح حقارت کی نظر سے یاد کرتے ہیں اور اس بحث کو غیر علمی اور ہر طرح کے اعتبار سے خالی تصور کرتے ہیں ؛اور جس وقت ایسی بحثیں ہوتی ہے تو ایک خاص حالت اور معنی دار اندازسے کہتے ہیں کہ '' اس کو چھوڑئیے' یہ تو فلسفہ ہے'' یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم فقط علم کی عظمت و اہمیت کے قائل ہیں اور علم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ واقعیت کو سو فیصد واضح اور ظاہر کرے بلکہ ہر نظریہ واقعیت کی وجہوں میں سے کسی ایک وجہ کو نہ کہ سبھی کو بتاتاہے ۔

نیوٹن کا قانون ''جاذبہ (کشش)''ہمارے لئے واقعیت کے صرف ایک حصہ کو بتاتا ہے ،اور انیشیٹن کا قانون ''نسبیت ''بھی واقعیت کی دوسری وجہ کو ہمارے لئے ظاہر کرتا ہے؛ اور کوئی بھی قانون ہمارے لئے ساری واقعیت کوظاہر نہیں کرتا لہذا با ت جب ایسی ہے تو دونوں صحیح ہیں یہ بھی اور وہ بھی ۔اور اس طرح سے ہم معرفت شناسی میں ایک طرح کثرت پرستی تک پہونچ جاتے ہیں جو کہ واقع میں ایک نسبیت پرستی اور شکاّکیت ہے البتہ بعض لوگ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اس نظریہ کو شکاکیت کی طرف پلٹائیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس نظریہ کا لازمہ نسبیت پرستی ہے، لیکن پھر بھی شکّاکیت اس میں پائی جاتی ہے بہر حال یہ چیز اہم نہیں ہے کہ اس کا کیا نام رکھا جائے شک گرائی یا نسبت گرائی ؛ہر حال میں اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ واقعیت کو ہم کبھی بھی نہیں حاصل کر سکتے ہیںیعنی علم ہم کو کبھی بھی (سو فیصد)اعتقادیقینی کی منزل تک نہیں پہونچا سکتا۔

بلّوری مثلث کی مثال کے ذریعہ پلورالزم کی وضاحت

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ممکن ہے کہ یہ نظریہ پلورالزم کی فکر کا مبنیٰ ہو کیونکہ علم کی اس تفسیر کی بنیا د پر جو ابھی پیش کی گئی ہے ہر علمی نظریہ ،بلّوری مثلث کے ایک زاویہ اور ایک رخ کے مانند ہے جو کہ واقعیت کے ایک حصّہ کو ظاہر کرتا ہے اور جو کوئی بھی جس زاویہ پر نگاہ ڈالتا ہے وہ واقعیت اور حقیقت کے اسی حصہ کو دیکھتا ہے پوری واقعیت کا نظارہ کرنا سب کے بس کی بات نہیں کیونکہ اور یہ واقعیت بلّوری مثلث کے مختلف حصّو ں میں پھیلی ہوئی ہے ۔

اگر پلورالزم کی اس طرح تفسیر کریں تو اس وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت ایک ہی ہے البتہ ایکا ایسی حقیقت جو ہر شخص کے لئے الگ الگ طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے ،یعنی ایک حقیقت واقع میں وہی پور ابلّوری مثلث ہے جو کہ کئی سطوح اور مختلف حصّوں میں ہے اور ہر علمی نظریہ اس کی ایک سطح اور حصّہ جیسا ہے،

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی پوری حقیقت کو شامل نہیں ہوتا ہے اگربلّوری مثلث کی اسی مثال اورتشبیہ کو نگاہ میں رکھیں اور چاہیں کہ پلوالزم کے بارے میں زیادہ واضح طورسے گفتگو کریں تو اس کی ایک تفسیر یہ ہوگی کہ حقیقت ایک ہے لیکن اس تک پہونچنے کے راستے الگ الگ ہیں ؛جس طرح بلّوری مثلث کہ ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے لیکن چونکہ جو شخص اس کی طرف ایک زاویہ سے دیکھتا ہے ممکن ہے اس کی نگاہ میں واقعیت کی تصویر دوسرے لوگوں کی بہ نسبت مختلف نظر آتی ہو؛ اس لئے کہ بلّوری مثلث کے کئی رخ اور زاویہ ہیں جو کہ ممکن ہے الگ الگ رنگ و خاصیت رکھتے ہوں ۔

ایک بلّوری مثلث کو اپنے سامنے رکھیئے اس کے ایک طرف محدّب (ابھرا ہوا ) آئینہ ہو دوسری جانب گہر ااور تیسری طرف مسطّح اور برابر آیئنہ ہواگر تین الگ الگ ایک ایک زاویہ سے اس بلّوری مثلث میں ایک شئے کی تصویر کو دیکھیں تو یقیناًوہ تین مختلف تصویروں کو دیکھیں گے جب کہ ہم الگ سے ناظر کے عنوان سے جانتے ہیں کہ یہ سب کے سب ایک ہی چیز کی تصویر کو دیکھ رہے ہیںجو کہ نظر کے زاوئیے مختلف ہونے اور الگ الگ جگہ کھڑے ہونے کی وجہ سے خود گمان کرتے ہیں کہ تین مختلف چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ بہر حال یہ وہی پلورالزم کی بہت سے سیدھے راستوں والی تفسیر ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم صرف ایک حقیقت رکھتے ہیں اور اس ایک حقیقت تک پہونچنے کے لئے کئی راستے پائے جاتے ہیں ۔ تمام دین دار بلکہ سبھی انسا نوں کا معبود اور مطلوب ایک ہے اور سب کے سب اس ایک حقیقت کے طالب ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اسلام کا راستہ ہے اور ایک یہودیت کا راستہ ہے لیکن آخرمیں سب ایک ہی مقصد اورمنزل پر جاکر تمام ہوتے ہیں پلورالزم کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم یہ نہ کہیں کہ حقیقت ایک ہے بلکہ بلّوری مثلث کے اطراف اور زاویوں کے مانند متعدد اور الگ الگ ہیں جو شخص جس زاویہ سے دیکھتا ہے اس کے لئے وہی حقیقت ہے چونکہ بلّوری مثلث کے اطراف اور اس کے رنگ جدا جدا ہیںجو کہ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ایک انسان حقیقت کو ہرا اورابھرا ہوا، دوسرا اسی کو نیلا اور گہرا اور تیسرا انسان اسی کو پیلا اور مسطّح دیکھتا ہے ؛حقیقت بھی ان تصویر وںکے علاوہ کچھ نہیں ہے اور تصویر یںبھی واضح طور سے جدا جدا ہیں پس حقیقت بھی انھیں کی طبیعت میں مختلف ہوتی ہے ظاہر ہے کہ پلورالزم کی یہ تفسیراس تفسیر سے مختلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے سیدھے راستے ایک حقیقت کی طرف ختم ہوتے ہیں پلورالزم کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ ہم ایک دین یا ایک علم کی ہر ایک بات کو الگ الگ نظر میں نہ رکھیں بلکہ ان تمام باتوں کے مجموعہ کے بارے میں یکجا صورت میںفیصلہ کریں؛ مثلاً جس وقت سوال کریں کہ شیعہ مذہب حق ہے یا باطل؛ تو تمام شیعی عقائدکے مجموعہ کو اپنی نگاہ میں رکھیں پلورالزم کی اس تفسیر کی بنا پر ہم کسی بھی مذہب کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں؛ کیونکہ تمام ادیان صحیح اور باطل دونوں اعتقادات و احکام سے مل کر بنے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ تمام ادیان حق بھی ہیں اور باطل بھی، حق اس اعتبار سے کہ اس کے بعض مطالب حق ہیں اور باطل اس اعتبار سے کہ اس کے بعض مطالب باطل ہیں ۔

لہذٰا جب ایسا ہے کہ ہر مذہب کے بعض عقائد و افکار اور اس کے احکام اور خصوصیا ت سچ اور جھوٹ ،حق اور باطل دونوں کا مجموعہ ہیں پس تمام ادیان برابر کی خصوصیات رکھتے ہیں اور جس دین کو بھی اختیار کر لیں کچھ فرق نہیں پڑتا ہے ۔

دینی معرفت کے دائرہ میں وحدت حقیقت کا نظریہ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next