غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ فلسفہ اخلاق کے ایک مکتب فکر اورنظریہ کے مطابق اچھا ہونا لذت آفرینی کے مترادف ہے یعنی ہر وہ چیز جس سے انسان لذّت حاصل کرے وہ اچھی اور پسندیدہ چیزہے ۔ اب اس نکتہ کی جانب توجہ کرتے ہوئے فرض کیجئے کہ بندہ (صاحب کتاب فلسفہ اخلاق) میں اسی نظریہ کا قائل ہوں اور اس بات کا اور معتقد ہوں کہ اچھا ہونا لذت پہونچانے کے مترادف ہے ؛جس چیز میں لذت زیادہ ہو وہی چیز زیادہ اچھی ہے اوراب اگر جھوٹ بولنے کی وجہ سے مجھ کو لذت حاصل ہورہی ہو تو کون سی دلیل کہتی ہے کہ میں جھوٹ نہ بولوں؟ظاہر ہے اس فکری قاعدہ کی بنیاد پر ایسی حالت میں میں جھوٹ ضرور بولوں گا کیونکہ جھوٹ بولنے میں لذت ہے؛ اگر کہیں پر سچ بولنا میرے لئے مصیبت اور رنج و غم کا سبب ہو تو وہاں پر مناسب نہیں ہے کہ میں سچ بولوں اور سچ بولنے کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ؛اسی طرح ان تمام چیزوں میں جن کو اخلاقی قدرو قیمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں اس مبنیٰ اور قاعدہ کی بنیاد پر اس کی رعایت کرنا لازم نہیں ہوگا ؛بلکہ بہت سی جگہوں پر اس اصول اور نظریہ کو پیروں سے روندنا بہتر سمجھا جائے گاکیونکہ اس سے لذت حاصل ہوتی ہے ؛اگر ہم کو چوری، خیانت ،رشوت اور ظلم کرنے میں لذت حاصل ہوتی ہو تو یہ ساری چیزیں اچھی ہیں یہ لذت طلبی کے مبنیٰ کا فطری نتیجہ ہے ۔

لہذٰا یہ کہ اصول اخلاقی کے اس مجموعہ کو جو سبھی کو قابل قبول ہو واحد عالمی دین کے عنوان سے پیش کرنے میں ایک اعتراض ہے کہ کیا واقعاًایسا مجموعی اصول پایا بھی جاتا ہے یا نہیں ؟ اور اس کے علاوہ دوسرابنیادی اعتراض یہ ہے کہ لوگوں کو کس طرح ان اصول کا پابندکیا جا سکتا ہے؛ اگر خدا،قیامت ، اور حساب وکتاب کی بحث نہ ہو تو پھر اپنے کو کیوں ان اخلاقی اصول کے قید و بند میں جکڑا جائے اور انھیں کا پابند رہا جائے ؟ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور قیامت سے چشم پوشی کی صورت میں کوئی بھی وجہ ان اصول کی رعایت اور ان پر عمل کرنے کے لئے نہیں پائی جاتی ہے :ہاں: یہ ممکن ہے کہ شوق و تنبیہ اور بار بار یاددلانے اور لازم قرار دینے نیز اجتماعی آداب و رسوم کے ذریعہ بچوں پر اتنا کام کیا جائے کہ ان اصول کی رعایت اور پابندی کرنا ان کے لئے ایک عادت کی شکل اختیار کر لے ،لیکن پھر بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک قابل استدلال اورمنطقی نظریہ کے عنوان سے ان باتوں کا دفاع کیا جائے، یعنی آپ کے لئے ممکن ہے کہ کسی کو ان اخلاق کا پابند کر دیں ؛لیکن آپ کا کام منطقی ہے اس کو کیسے ثابت کیجئے گا ؟جس طرح سے یہ ممکن ہے کہ شوق، تنبیہ اور مشق و یاد دہانی کے ذریعہ بچوں میں سچ بولنے کا ملکہ پیدا کردیں؛اور ان کواس کاعادی بنا دیں اسی طرح انھیں وسائل و ذرائع سے آپ بچے کو جھوٹ بولنا بھی سکھا سکتے ہیں ،اب جب ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم بچوں کے جھوٹ بولنے کو عادت میں تبدیل کر سکتے ہیں تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جھوٹ بولنا اچھا ہے ؟

''کانٹ' 'اس اعتراض سے اچھی طرح واقف تھا اور اس بات کو سمجھ گیا تھاکہ اگر انسان اپنے اعمال کے بدلے ثواب و عذاب کا معتقد نہ ہو توان اعمال کو انجام دینے کے لئے اس کے پاس کوئی بھی ضمانت نہیں ہے؛ لہذٰا اگرچہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا تھا کہ اخلاقی اقداراور اخلاقی اچھائیاں وہ ہیں کہ ہم کاموں کو صرف ضمیر اور عقل کے حکم کی وجہ سے انجام دیں ؛لیکن اگر ثواب و عذاب کی امید سے ان کو انجام دیں تو ان میں اخلاقی قدرو قیمت نہیں پائی جائے گی؛ پھر بھی وہ کہتا ہے کہ اگر اخلاق چاہتا ہے کہ اس عمل کو انجام دینے کے لئے الگ سے کوئی ضامن ہو تو ہم کو کچھ اصول کو قبول کرنا ہوگا ؛اوروہ تقریباً وہی اصول ہیں جن کو ہم مسلمان قبول کرتے ہیں ۔ کانٹ کہتا تھا کہ میں خدا کے وجود اور اسی طرح روح اور انسانی نفس کے ہمیشہ قائم و دائم رہنے کواسی بات سے ثابت کرتا ہوں ۔

چونکہ اگر وہ خدا جو حساب و کتاب رکھتا ہے اور ثواب و عذاب دیتا ہے اس کا اعتقاد نہ رکھیں تو اچھے کام کو انجام دینے کا کوئی سبب نہیں پایا جائے گا؛ اسی طرح اگر انسان کی روح و نفس کے ہمیشہ رہنے کے معتقد نہ ہوں اور کہیں کہ انسان مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں رہتا اور جزا و سزا بھی اگر ہے توصرف اسی دنیا تک ہے پھر بھی ان اصول وقواعد کی رعایت کا کوئی باعث اور سبب نہیں ہوگااس بنیاد پر اگرچہ کانت معتقد تھا کہ خدا کو برہان نظری سے ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ کہتا تھا کہ میں عقل عملی کے ذریعہ اس بات کا معتقد ہوں کہ خدا کا وجود ہونا چاہئے تا کہ اخلاق کسی سہارے اور ضمانت کے بغیرنہ رہ جائے ۔

گذشتہ بحث کا خلاصہ

اس جلسے کی بحث کاخلاصہ یہ ہوا کہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ادیان میں اختلافات فرعی اور ذوق و سلیقے کے مطابق ہیں لہذٰا ہم ان کے مشترکات کو لیکر ایک عالمی دین کی شکل میں پیش کریں، ان کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سب سے پہلے بنیادی طور پر تمام دین کے اصول خدا، نبوت اور عبادت کے اعمال ہیں اور تحقیق سے یہ معلوم ہے کہ یہ اصول کسی بھی صورت سے تمام ادیان میں مشترک نہیں ہیں ۔

دوسرے یہ کہ اگر خدا، نبو ت پر اعتقاد اور عبادات کی بات کو چھوڑ دیں اور اس بات کو قبول کریں کہ وہ واحد عالمی دین ان چند اخلاقی اصول کے مجموعہ کا نام ہے جو کہ تمام ادیا ن میں مشترکہ طور سے پائے جاتے ہیں ؛سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیافقط ان اصول کے اعتقاد کا نام دین ہے یا اس کے ساتھ ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے ؟ اگر صرف اعتقاد اور لفظ کا نام دین ہے تو واضح سی بات ہے صرف کہنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے اور اس پر کچھ بھی اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ قول کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے، اگر ہم عمل کے بھی قائل ہوں تو سوال یہ ہے کہ خدا، نبوت اور قیامت کا انکار کر کے ان اعمال کو انجام دینے کے لئے کون سی ضمانت پائی جاتی ہے ؟ خاص طور پر اس جانب توجہ کرتے ہوئے کہ فلسفہ اخلاق میں دوسرے مکاتب فکر جیسے لذت طلبی وغیرہ والے بھی پائے جاتے ہیں؛ جو کہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اچھے اخلاق وہ چیزیں ہیں جو کہ انسان کے لئے لذت بخش ہوںجو شخص ایسا اعتقاد رکھتا ہو اس کے لئے 'سچ بولنا اورسچ بولنے پر اسے مجبور کرنا جب کہ یہ کام اس کے لئے مصیبت اور نارا حتی کا سبب ہو اور جھوٹ ، خیانت سے اس کو باز رکھنا جب کہ یہ اس کے لئے لذت بخش ہو، کس طرح ممکن ہے؟ یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ ادیان میں مشترکات نہیں پائے جاتے ہیں،اس بات کے علاوہ اگر تمام ادیان کو نہ بھی کہیں تو کم سے کم بہت سے ادیان ایسے ہیں جو کہ بہت ہی سختی کے ساتھ ایک دوسرے کے اعتقادات کی نفی کرتے ہیں ،اور اس کے لئے ایک دوسرے سے جنگ و جدال کرتے ہیں؛خدا پر اعتقاد کی ہی بات کو لے لیجئے اسلام خدائے وحدہ لا شریک پر اعتقاد کو لازم قرار دیتا ہے اس کے علاوہ شرک یعنی ایک خدا کے علاوہ دوسرے خدا کے انکار کو لازم قرار دیتا ہے ؛بلکہ اسلام کی ابتدا ء ہی تنہا خدا کے علاوہ دوسرے خدائوں کے انکار سے ہوتی ہے پھر توحید تک بات پہونچتی ہے، سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے لا الہٰ(کوئی خدا نہیں ) پھر اس کے بعد ہے الاّاللہ (سوائے اللہ کے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان سب سے پہلے مسیحیت کے تین خدا کا انکار کرے پھر وہ اسلام کی وحدانیت تک پہونچ سکتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ادیان کے مشترکات تک پہونچنا انسانکے لئے ممکن نہیں ہے ۔

بہر حال آخری نتیجہ یہ ہے کہ یہ فرضیہ (واحدعالمی دین ) ثبوتی اعتبار سے اور اپنے معنی ومطلب کے اعتبار سے ناممکن ہے ۔اور اثباتی اعتبار سے بھی کوئی دلیل اس کے ثابت ہونے پر نہیں پائی جاتی ہے اور ہمارے نظریہ کے اعتبار سے یہ بات پوری طرح سے مردود اور قابل رد ہے اورہم اس کو قبول نہیں کرتے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19