غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



خبری باتوں میں پلورالزم کا انکار، اخلاقی اور اقداری مسائل میں اس کا اقرار

دوسری بات جو یہاں پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ قضایائے خبری اور انشائی کے درمیان فرق ہے ۔معرفت شناسی کی بحث میں کہا گیاہے کہ وہ قضایاکہ جن سے ہماراعلم تعلق رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں ،کچھ وہ قضایائے خبری ہیں کہ میں ان کو ''موجود ومعدوم ''سے تعبیر کیا جاتا ہے، دراصل اخبار کی یہ وہ قسمیں ہیں جو کسی شئے کے موجو دہونے یا نہ ہونے کی خبر دیتے ہیں ۔ دوسرے وہ قضایا ہیں اصطلاح میںجن کو ''اوامرونواہی''سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے اور یہ ان قضایا کو شامل ہیں جو کہ کسی بات کے محقق ہونے یا نہ ہونے کی خبروں پر مشتمل نہیں ہیں؛اس طرح کے قضایا کو انشائی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جبکہ پہلے والے کو خبری کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

ممکن ہے کوئی شخص ان قضایا میں کہ جنکے بارے میں خبر دی جا رہی ہے صدق و کذب پایا جاتا ہو اور یہ خبریں جھوٹ اور یا سچ پر مشتمل ہوں؛ ان میں کوئی بحث نہ کرے،لیکن قضایائے انشائی کے متعلق کہے کہ ان کی خبریں سچ اور جھوٹ سے متصف نہیں ہوتی ہیں اور ان میں صدق و کذب نہیں پایا جاتا ہے ؛جس طرح ہماری موجودہ بحث میں بھی کہا جاتا ہے کہ ''دین کے اعتقادی مسائل میں سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط ہونا معنی رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک نظریہ کو صحیح اور دوسرا نظریہ جو اس کے مقابل ہے اس کو باطل جانا جائے؛ لیکن جو دینی قضایا اخلاق اور اوامرو نواہی پر مشتمل ہیں وہ ایسا حکم نہیں رکھتے ہیں؛ یہ قضایا کسی عینی واقعیت اور حقیقت کو کشف نہیں کرتے ہیں تا کہ ہم یہ کہیں کہ ایک نظریہ صحیح ہے اور بقیہ نظریئے باطل ہیں ۔ اسلام کی تمام اخلاقی باتیں ااور اس کے احکام و قوانین اسی طرح کے ہیں ؛اس طرح کی عبارتیں اور جملے کہ ''نماز پڑھنا چاہئے،جھو ٹ نہیں بولنا چاہئے، دوسروں کے حقوق کو غصب نہیں کرنا چاہئے ''اور اسی طرح کی دوسری خبریں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان کے بارے میں کہہ سکیں یہ صحیح ہیں یا غلط، جھوٹ ہیں یا سچ ،چونکہ یہ ثابت حقیقت کی حکایت نہیں کرتے ہیں تاکہ ہم ان کے مفہوم کو دیکھیں اور ثابت حقیقتوں سے ان کا مقایسہ کریں، اور پھر دیکھیں کہ اگر مطابقت رکھتے ہیں تو ان کو صحیح جانیں اوراگر مطابقت نہیںرکھتے توان کو غلط جانیں ۔ اصل میں اس طرح کی خبریں صرف ذوق و سلیقہ اور اعتبار و قرارداد کی نشاندہی کرتی ہیں؛ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہرا رنگ اچھا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ پیلا رنگ اچھا ہے تو ان دونوں کا یہ کہنا فقط اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایک کا ذوق اوراس کی طبیعت سبز رنگ کو پسند کرتی ہے اور دوسرے کی طبیعت اور اس کا ذوق پیلے رنگ کی طرف مائل ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک صحیح کہہ رہا ہے اور دوسرا غلط کہہ رہا ہے یا ہرا رنگ حقیقت میں اچھا ہے اور پیلا رنگ واقعاًاچھا نہیں ہے؛ اس مورد میں حقیقت وخطا،صحیح وغلط کی بحث کرنا پوری طرح بے معنی ہے ۔

اخلاقی باتوںکے متعلق معرفت شناسی کے اس مبنیٰ کی بنیادپر ایک ہی چیز میں نسبیت اور مختلف نظریوں کے قبول کرنے کا دروازہ کھل سکتا ہے ۔

جس طرح یہ ممکن ہے کہ کہا جائے سبز رنگ اچھا ہے اور زرد رنگ بھی اچھا ہے صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور بنفشی رنگ بھی اچھا ہے یہ اس بات پر معلق ہے کہ کون کس رنگ کو پسند کرتا ہے، دین کے مورد میں بھی کم سے کم اس کے بعض حصّے جیسے احکام اور اس کے اخلاقی مسائل میں ہم اس نظریے کے قائل ہو سکتے ہیں جہاں پر ایسی باتیں ہوں کہ اوامر ونواہی سے تعلق رکھتی ہوں وہاں ممکن ہے کہ زمان و مکان اور افراد کے اختلاف وتعدد کے اعتبار سے ہم بہت سے قابل قبول مختلف نظریوںکو قبول کریں ۔

پہلی صدی ہجری میں ایک بات کو لوگ اچھا جانتے تھے لیکن ممکن ہے کہ چودہویں صدی ہجری میں لوگ اسی بات کو خراب اور معیوب سمجھتے ہوں یہ دونوں اپنے اپنے زمانے کے اعتبار سے صحیح ہیں ؛یہ ممکن ہے کہ جاپانیوں کے لئے ایک چیز اچھی ہے تو انگریزوں کے لئے دوسری چیز اچھی ہے اور دونوں باتیں صحیح ہیں ۔جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ پوری طرح سے ننگے اور برہنہ ہونا اور اس حالت میں عام لوگوں کے سامنے جانا ،ایک برا کام ہے اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں ؛لیکن ممکن ہے کہ یہی چیزایک دن ایک معاشرہ میں ایک عام چیز ہو اور لوگ اسی کو پسند کرتے ہوں اور ننگے رہنا مفید جانتے ہوں ؛یہ سب ایسے مسائل ہیں جو کہ اجتماعی عرف اور اعتبار وقرار دادسے متعلق ہیں اور جو کچھ بھی ہو فرق نہیں کرتا ہے ۔ اچھائی اور برائی چاہے اسلام میں ہو یا کسی دوسرے مذہب میں اسی طرح سے ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ احکام و اخلاق جو مسیحیت کے ہیں وہ درست ہیں یا اسلام کی باتیں یا بس یہودیت کی تعلیمات صحیح ہیں بلکہ ان میں سے جو جس کو پسند کر لے وہی اس کے لئے صحیح ہے ۔

اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اعتقادات اور دین کے وہ مسائل جو کہ ''موجودومعدوم '' پر مشتمل ہیں ان اس میں پلورالزم کو قبول نہ کریں لیکن دین کے احکام اور اخلاقی مسائل میں لازمی طور پر اس کو قبول کریں اور کثرت و تکثر کو مانیں ۔

جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا معرفت شناسی کے مسئلہ میں بعض لوگ سبھی انسانی علوم ومعارف چاہے کسی بھی شعبہ میں ہوان، نسبی جانتے ہیں لیکن بعض لوگ فقط احکام اور اخلاق کے مسائل میں نسبیت کے قائل ہیں یا سرے سے ہی مفید خبروں اخلاقی باتوں کو سچ اور جھوٹ ہونے یا صحیح اور غلط ہونے کے قابل نہیں جانتے ہیں ۔

اب ہم کو اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ اخلاقی مسائل میں نسبیت صحیح ہے یا نہیں ؟

اخلاق کے دائرہ میں پلورالزم کے نظریہ پربحث



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next