شیعه تاریخ کے آئینه میں



دوسری طرف بنی امیہ آپس میں اپنے طرفداروں کے درمیان مشکلات واختلافات کاشکار تھے اس لئے کہ بنی امیہ کے طرفداروں میں مصریوں اور یمنیوں کے درمیان بھت زیادہ اختلاف تھا، یہ مشکلات اور گرفتاریاں سبب واقع ھوئیں کہ بنی امیہ شیعوں سے غافل ھو گئے جس پر شیعیوں نے سکون کا سانس لیا اور شدید تقیہ کی حالت سے باھر آئے تاکہ اپنے رھبروں سے رابطہ برقرار کر یں اور دوبارہ منظم ھوں،یہ وہ دور تھا کہ جس میں لوگ امام باقر(علیہ السلام) کی طرف متوجہ ھوئے اور ان نعمتوں سے بھرہ مند ھوئے کہ جس سے برسوں سے محروم تھے، حضرت(علیہ السلام) نے مکتب اھل بیت(علیہ السلام) کو زندہ رکھنے کے لئے قیام کیا اور لوگوں کی ھدایت کے لئے مسجد نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں درسی نششتیں اورجلسے تشکیل دیئے جو کہ لوگوں کے رجوع کرنے کا محل قرار پایا ان کی علمی اور فقھی مشکلات کواس طرح حل کرتے تھے کہ جو ان کے لئے حجت ھو، قیس بن ربیع نقل کرتے ھیں کہ میں نے ابواسحاق سے نعلین پرمسح کرنے کے متعلق سوال کیا اس نے کھا: میں بھی تمام لوگوں کی طرح نعلین پر مسح کرتا تھا یھاں تک کہ بنی ھاشم کے ایک شخص سے ملاقات کی کہ میں نے ھر گز اس کے مثل نھیں دیکھا تھا اوراس سے نعلین پر مسح کرنے کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے مجھے اس کام سے منع کیا اور فرمایا امیرالمو منین(علیہ السلام) نعلین پر مسح نھیں کرتے تھے اس کے بعد میں نے بھی ایسا نھیں کیا، قیس بن ربیع کھتے ھیں : یہ بات سننے کے بعد میں نے بھی نعلین پر مسح کرنا ترک کردیا۔

خوارج میں سے ایک شخص امام مُحمّد باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں آیا اور حضر ت کو مخاطب کر کے کھا: اے ابا جعفر(علیہ السلام) کس کی عبادت کرتے ھیں؟ حضرت نے فرمایا: خُدا کی عبادت کرتا ھوں،اس شخص نے کھا: کیا اس کو دیکھاھے؟ فرمایا: ھاں لیکن دیکھنے والے اس کا مشاھدہ نھیں کر سکتے بلکہ بہ چشم قلب حقیقت ایمان سے اس کو دیکھا جا سکتا ھے، قیاس سے اس کی معرفت نھیں ھو سکتی حواس کے ذریعہ اس کو درک نھیں کیاجا سکتا،وہ لوگوں کی شبیہ نھیں ھے،وہ خارجی شخص امام(علیہ السلام) کی بارگا ہ سے یہ کھتا ھوا نکلا کہ خُدا خوب جانتا ھے کہ رسالت کو کھاں قرار دے۔

عمر و بن عبید، طاوٴس یمانی، حسن بصری، ابن عمرکے غلام نافع، علمی وفقھی مشکلات کے حل کے لئے امام(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ھو تے تھے۔[75]

امام محمد باقر علیہ السلام جس وقت مکہ میں آتے تھے تو لوگ حلال و حرام کو جاننے کے لئے امام(علیہ السلام) کے پاس آتے تھے اور حضرت(علیہ السلام) کے پاس بےٹھنے کی فرصت کو غنیمت شمار کرتے تھے اور اپنے علم ودانش میں اضافہ کرتے تھے۔ سر زمین مکہ پر آپ کے حلقہ درس میں طالب علموں کے علاوہ اس زمانہ کے دانشمند بھی شریک ھوا کرتے تھے۔ [76]

جس وقت ھشام بن عبدالملک حج کے لئے مکہ آیا اور حضرت(علیہ السلام) کے حلقہٴ درس کو دیکھا تو اس پر یہ بات گراں گذری اس نے ایک شخص کو امام(علیہ السلام) کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ امام سے یہ سوال کرے کہ لوگ محشر میں کیا کھائیں گے؟ امام(علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا: محشر میں درخت اور نھریں ھوں گی جس سے لوگ میوہ کھائیں گے اور نھر سے پانی پئیں گے یھاں تک کہ حساب و کتاب سے فارغ ھوجائیں،ھشام نے دوبارہ اس شخص کو بھیجا کہ وہ امام(علیہ السلام) سے سوال کرے کہ کیامحشر میں لوگوں کو کھانے پینے کی فرصت ملے گی؟ امام نے فرمایا: جھنم میں بھی لوگوں کو کھانے پینے کی فرصت ھوگی اور اللہ سے پانی اور تمام نعمتوں کی درخواست کریں گے۔

زُرارہ کا بیان ھے امام باقر(علیہ السلام) کے ھمراہ کعبہ کے ایک طرف بےٹھا ھوا تھا امام(علیہ السلام) روبقبلہ تھے اور فرمایا: کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ھے اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے کھا کہ کعب الاحبارکا کھنا ھے کہ کعبہ بیت المقدس کو ھر روز صبح کو سجدہ کرتا ھے، حضر ت(علیہ السلام) نے فرمایا: تم کیا یہ کھتے ھو اس شخص نے کھا: کعب سچ کھتا ھے، ا مام(علیہ السلام) ناراض ھو گئے اور فرمایا: تم اور کعب دونوں جھو ٹ بو لتے ھو۔[77]

حضرت(علیہ السلام) کے محضراقدس میں بزرگ علماء،فقھا اور محدّثین نے تربیت پائی ھے جیسے زُرارہ بن اعین کہ جن کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایاھے: اگر زُرارہ نہ ھوتے تو میر ے والد کی احادیث کے ختم ھو جانے کا احتمال تھا۔[78]

محمدبن مسلم نے امام محمدباقر(علیہ السلام) سے تیس ہزار حدیثیں سنی تھیں [79]ابو بصیر جن کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام)نے فرمایا: اگر یہ لوگ نہ ھوتے تو آثار نبوت پرانے ھو جاتے یا قطع ھو جاتے[80] اور دوسرے بزرگ جیسے یزید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین، ھشّام بن سالم حضر ت(علیہ السلام) کے مکتب کے تربیت یافتہ تھے، شیعہ علماء کے علاوہ بھت سے علمائے اھل سنّت بھی امام(علیہ السلام) کے شاگرد تھے اور حضرت(علیہ السلام) سے روایتیں نقل کی ھیں، سبط ابن جوزی کھتا ھے: جعفر(علیہ السلام) اپنے باپ کے حوالے سے حدیث پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کرتے تھے، اسی طرح تا بعین کی کچھ تعداد نے جیسے عطا بن ابی رباح، سفیان ثوری، مالک بن انس(مالکی فرقہ کے رھنما) شعبہ اور ابو ایوب سجستانی نے حضرت(علیہ السلام) کی طرف سے حدیثیں نقل کی ھیں [81]خلاصہ یہ کہ حضرت(علیہ السلام) کے مکتب سے علم فقہ وحدیث کے ہزاروںعلماء و ماھرین نے کسب فیض کیا اور ان کی حدیثیں تمام جگہ پھیلیں بزر گ محدّث جابر جعفی نے ستّر ہزارحدیثیں حضرت(علیہ السلام) سے نقل کی ھیں [82] حضرت(علیہ السلام) نے ۱۱۴ھ میں ساتویں ذی الحجہ کوشھادت پائی۔ [83]

جعفریہ یونیورسٹی

امام صادق(علیہ السلام) کو ایک مناسب سیاسی موقع فراھم ھوا تھا کہ جس میں انھوں نے اپنے والد کی علمی تحریک کو آگے بڑھایا اور ایک عظیم یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی کہ جس کی آواز پورے آفاق میں گونج گئی۔

شیخ مفید لکھتے ھیں: حضرت(علیہ السلام) سے اتنی مقدار میں علوم نقل ھوئے کہ زبان زدخلائق تھے امام کی آواز تمام جگہ پھیل گئی تھی، خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی فرد سے اتنی مقدار میں علوم نقل نھیں ھوئے ھیں ۔[84]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 next