شیعه تاریخ کے آئینه میں



(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ کا)علوی میں سے جعفر بن محمد الصادق(علیہ السلام)،عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی(علیہ السلام) اور عمرالاشرف بن زیدالعابدین Ú©Û’ پاس خط لکھا اور اپنے نامہ بر سے کھا: سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ جعفر بن محمد(علیہ السلام) Ú©Û’ پاس جانا اگر وہ قبول کرلیں تو بقیہ دونوں خطوط Ú©Û’ Ù„Û’ جانے Ú©ÛŒ ضرورت نھیں Ú¾Û’ اور اگر وہ قبول نہ کریں تو عبداللہ محض Ú©Û’ پاس جانا اور اگر وہ بھی قبول نہ کریں تب عمرالاشرف Ú©Û’ پاس جانا، نامہ بر سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ مام صادق(علیہ السلام) Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ھوا، نامہ دیا امام Ù†Û’ فرمایا: ابو سلمہ دوسروں کا محب اور چاھنے والاھے مجھے اس سے کیا کام، نامہ بر Ù†Û’ کھا: خط تو Ù¾Ú‘Ú¾ لیجےے امام Ù†Û’ خادم سے چراغ منگوایا اور خط Ú©Ùˆ جلا دیا، نامہ بر Ù†Û’ کھا: جواب نھیں دیجےگا؟ امام Ù†Û’ فرمایا: جواب یھی Ú¾Û’ جو تم Ù†Û’ دیکھا Ú¾Û’ØŒ ابو سلمہ کا نمایندہ عبداللہ بن حسن Ú©Û’ پاس گیا اور خط دیا عبداللہ Ù†Û’ جیسے Ú¾ÛŒ خط پڑھا خط Ú©Ùˆ بوسہ دیا فوراً امام صادق(علیہ السلام) Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ھوئے اور کھا: یہ ھمارے چاھنے والے شیعہ ابو سلمہ کا خط ھے،خراسان میں جھے خلافت Ú©ÛŒ دعوت دی Ú¾Û’ امام Ù†Û’ فرمایا: خراسان Ú©Û’ لوگ کب سے تمھارے چاھنے والے Ú¾Ùˆ گئے ھیں کیا ابو مسلم Ú©Ùˆ تم Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ جانب روانہ کیا Ú¾Û’ØŸ کیا تم ان میں سے کسی Ú©Ùˆ پھچانتے ھو؟ تم نہ انھیں جانتے Ú¾Ùˆ اور نہ وہ تمھیں جانتے ھیں تو پھر وہ کیسے تمھارے چاھنے والے ھیں؟  عبداللہ Ù†Û’ کھا: آپ Ú©ÛŒ باتوں سے ایسا لگتا Ú¾Û’ کہ آپ ان ساری باتوں سے واقف ھیں، امام Ù†Û’ فرمایا: خدا جانتا Ú¾Û’ میں ھر مسلمان Ú©ÛŒ بھلائی چاھتا Ú¾ÙˆÚº تمھاری بھلائی کیوں  نہ چاھوں، اے عبداللہ  ان باطل آرزوؤں Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو اور اس بات Ú©Ùˆ جان لو  کہ یہ حکومت بنی عباس Ú©ÛŒ Ú¾Û’ ایسا Ú¾ÛŒ خط میرے پاس بھی آچکا Ú¾Û’ØŒ عبداللہ وھاں سے ناراض Ú¾Ùˆ کر واپس آگئے عمر بن زیدالعابدین Ù†Û’ بھی ابو سلمہ Ú©Û’ خط Ú©Ùˆ رد کر دیا اور کھا: میں خط بھیجنے والے Ú©Ùˆ نھیں جانتا کہ جواب دوں ابن طقطقا،الفخری،صادر بیروت Û±Û³Û¶Û¸Ú¾ ص Û±ÛµÛ´ØŒ اور مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذھب، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، ج Û´ØŒ ص Û²Û¸Û° حطانی قبائل Ú©Û’ درمیان قبیلہٴ حمدان تشیع میں سب سے آگے تھا چنانچہ سید محسن امین Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ وزراء شیعہ میں شمار کیا Ú¾Û’ØŒ[148]حتیٰ شروع میں خود عباسیوں Ù†Û’ بھی ذریت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©ÛŒ محبت سے انکار نھیں کیا Ú¾Û’ جیسا کہ لکھا Ú¾Û’: جس وقت بنی امیہ Ú©Û’ آخری خلیفہ مروان بن محمد کا سر ابوالعباس سفاح Ú©Û’ سامنے لایا گیا تو وہ طولانی سجدہ بجالایا اور اس Ù†Û’ سر Ú©Ùˆ اٹھا کر کھا: حمد اس خدا Ú©ÛŒ جس Ù†Û’ مجھے تیرے اوپر کامیابی عطا کی، اب مجھے اس بات کاغم نھیں Ú¾Û’ کہ میں مر جاؤں کیونکہ میں Ù†Û’ حسین اوران Ú©Û’ بھائی اور دوستوں Ú©Û’ مقابلہ میں بنی امیہ Ú©Û’ دو سوافراد Ú©Ùˆ قتل کردیا، اپنے چچا Ú©Û’ بیٹے زید بن علی Ú©Û’ بدلے میں ھشام Ú©ÛŒ ہڈیوں Ú©Ùˆ جلا دیا اور اپنے بھائی ابراھیم Ú©Û’ بدلے میں مروان Ú©Ùˆ قتل کردیا۔[149]

 Ø¬Ø¨ عباسیوں Ú©ÛŒ حکومت مضبوط Ùˆ مستحکم ھوگئی توان Ú©Û’ نیز خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور شیعوں Ú©Û’ درمیان فاصلہ ھوگیا،منصور عباسی Ú©Û’ زمانے سے عباسیوں Ù†Û’ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©ÛŒ ذریت Ú©Û’ ساتھ بنی امیہ Ú©ÛŒ روش اختیا ر کی، بلکہ خاندان پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی میں بنی امیہ سے بھی آگے بڑھ گئے۔

<۲>بنی امیہ کا خاتمہ اور عباسیوں کا آغاز

اموی دور حکومت کے ختم ھونے اور عباسیوں کی حکومت آنے کے بعداور ان کے درمیان جنگ و جدال کی وجہ سے امام باقر(علیہ السلام) و امام صادق(علیہ السلام) کو فرصت مل گئی انھوں نے تشیع کے مبانی کوپھچنوانے میں غیر معمولی فعالیت وسر گرمی انجام دیں، خاص طور پر امام صادق(علیہ السلام) نے مختلف شعبوں اور مختلف علوم میں بھت سے شاگردوں کی تر بیت کی ممتاز دانشور جیسے ھشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب،ھشام بن سالم مومن طاق، مفضل بن عمر، جابر بن حیان وغیرہ نے حضرت کے محضر میں تربیت پائی تھی، شیخ مفیدکے قول کےمطابق ان کے موثقین(معتمدین)کی تعدادچار ہزار تھی،[150]مختلف اسلامی سر زمین کے لوگ امام کے پاس آتے تھے اور امام سے فیض حاصل کرتے تھے اور اپنے شبھات کو برطرف کرتے تھے، حضرت کے شاگرد مختلف مناطق اور شھروں میں پھیلے ھوئے تھے، فطری بات ھے کہ یہ لوگ مختلف مناطق میں تشیع کے پھیلانے کا سبب بنے۔

 <Û³>علویوں Ú©ÛŒ ھجرت

عباسیوں کے دور میں تشیع کے پھیلنے کے سلسلہ میں ، سادات اور علویوں کا مختلف مقامات پر ھجرت کرجانا بھی ایک اھم سبب بنا، ان میں اکثر تشیع نظریات کے حامل تھے اگر چہ ان میں سے کچھ زیدی مسلک کی طرف چلے گئے تھے یھاں تک کہ بعض منابع کے نقل کے مطابق سادات کے درمیان ناصبی بھی موجود تھے۔[151]

یقین کے ساتھ کھا جا سکتا ھے کہ سادات میں اکثر شیعہ تھے اورشیعہ مخالف حکومت کے ذریعہ ان پرجو مصیبتیںپڑیںان کی وجہ بھی واضح ھے، سرزمینوں میں سادات تھے، ماوراء النھر اور ھندوستان سے لے کر افریقہ تک پھیلے ھوئے تھے اگر چہ یہ ھجرت حجاج کے زمانے سے شروع ھوگئی تھی عباسیوں کے زما نے میں علویوں کی طرف سے جو قیام ھوا ان میں سے زیادہ تر میں شکست ھوئی اور بھت نقصان ھوا، شمال ایران، گیلان، مازندران نیز خراسان کے پھاڑی اور دور افتادہ علاقہ علویوں کے لئے امن کی جگہ شمار ھوتے تھے، سب سے پھلی بار ھارون رشید کے زمانے میں یحییٰ بن عبداللہ حسنی مازندران کی طرف گئے کہ جو اس زمانے میں طبرستان کے نام سے مشھور تھا، جب انھوںنے قدرت حاصل کرلی اور ان کے کام میں کافی ترقی پیدا ھوگئی توھارون نے اپنے وزیر فضل بن یحییٰ کے ذریعہ امان نامہ لکھ کر صلح کے لئے وادار کیا۔[152]

اس کے بعدوھاں کافی تعداد میں علوی آباد ھوگئے اور روز بروز شیعیت کو فروغ ملتا گیا اور وھاںکے لوگوں نے پھلی بار علویوں کے ھاتھوں اسلام قبول کیا اورتیسری صدی ھجری کے دوسرے حصہ میں علویوں کی حکومت طبرستان میں حسن بن زید علوی کے ذریعہ تشکیل پائی اس زمانے میں سادات کے لئے یہ جگہ مناسب سمجھی جاتی تھی، جیسا کہ ابن اسفند یار کا بیان ھے کہ اس موقع پر درخت کے پتوں کے مانند علوی سادات اور بنی ھاشم حجازنیز اطراف عراق وشام سے ان کی خدمت میں جمع ھوگئے سبھی کو عزت و شرف سے بھت بھت نوازا اور ایساھوگیا تھاکہ جب وہ کھیں جاناچاھتا تھا تین سو شمشیر بکف علوی اس کے ارد گرد صف بستہ ھوتے تھے۔[153]

جس وقت امام رضا(علیہ السلام) مامون کے ذریعہ ولایت عھدی کے منصب پر پھنچے، حضرت کے بھائی اور ان کے قریبی افرادایران کی طرف روانہ ھوئے جیسا کہ مرعشی نے لکھا ھے: سادات نے ولایت کی آواز اور اس عھد نامہ پر کہ جو مامون کی طرف سے آنحضرت کی امامت کا پروانہ تھا اس طرف رخ کیا انحضرت(علیہ السلام) کے اکیس دوسرے بھائی تھے یہ تمام بھائی اور چچا زاد بھائی حسنی اور حسینی سادات میں سے تھے جھوںنے ری اور عراق میں حکومت کی، جب سادات نے یہ سنا کہ مامون نے حضرت امام رضا(علیہ السلام) سے غداری کی ھے تو انھو ںنے کوھستان دیلمستان اور طبرستان میں جاکر پناہ لی اور بعض لوگ وھیں شھید ھوگئے، ان کی قبریں اور مزار مشھور ھیں، جیسیاھل اصفھان مازندران کہ جنھوںنے شروع میں اسلام قبول کیا تھا وہ سب کے سب شیعہ تھے اور اولاد رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حُسن عقیدت رکھتے تھے اور سادات کے لئے وھاں قیام کرنا آسان تھا۔[154]

شھید فخ کے قیا م کی شکست کے بعد ھادی عباسی کے دور خلافت میں حسین بن علی حسنی، ادریس بن عبداللہ محمد نفس زکیہ کا بھائی افریقہ گئے تو وھاں پرلوگ ان کے اطراف ھیں جمع ھوگئے اورانھوں نے حکومت ادریسیان کی مغرب میں بنیاد ڈالی، چند روز نھیں گذرے تھے کہ خلافت کے کارندوں کے ذریعہ انھیں زھر دے دیا ھوگیا، لیکن ان کے بیٹوں نے وھاں پرتقریباً ایک صدی حکومت کی،[155]اس طرح سادات نے اس طرف کا رخ کیا اسی وجہ سے متوکل عباسی نے ایک نامہ مصر کے حاکم کو لکھا کہ سادات علوی میں مردوں کوتیس دینار اور عورتوں کو پندرہ دینارکے بدلے نکال باھر کرے لہذایہ لوگ عراق منتقل ھوگئے اور وھاں سے مدینہ بھیج دئے گئے۔[156]

منتصر نے بھی مصر کے حاکم کو لکھا کہ کوئی بھی علوی صاحب ملکیت نہ ھونے پائے اور گھوڑے پر سوار نہ ھونیز پائے تخت سے کسی دوسرے علاقہ میں کوچ نہ کرنے پائے اور ایک غلام سے زیادہ رکھنے کا انھیں حق حاصل نہ ھو۔[157]

 Ø¹Ù„ویوں Ù†Û’ تیزی سے لوگوں Ú©Û’ درمیان خاص مقام پیدا کر لیا اس حد تک کہ حکومت سے مقابلہ کر سکیں جیسا کہ مسعودی نقل کرتا Ú¾Û’:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 next