شیعه تاریخ کے آئینه میں



امیرعلی حضرت(علیہ السلام) کے بارے میں لکھتے ھیں: علمی مباحث اور فلسفی مناظروں نے تمام مراکز اسلامی میں عمومیت پیدا کرلی تھی اور اس سلسلے میں جو رھنمائی اور ھدایت دی جاتی تھی وہ فقط اس یونیورسٹی کی مرھون منت تھی جو مدینہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے زیر نظر تھی، آپ امیرالمومنین(علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے نیز ایک عظیم وبزرگ دانشور تھے کہ جن کی نظر دقیق اور فکر عمیق تھی اس دور میں تمام علوم کے متبحرتھے، در حقیقت اسلام میں دانشکدئہ شعبہٴ معقولات کے بانی تھے۔ [85]

 Ø§Ø³ بنا پر علم Ùˆ دانش Ú©Û’ چاھنے والے اور معارف محمدی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©Û’ تشنہ لب افراد جوق در جو مختلف اسلامی سر زمینوں سے امام(علیہ السلام)Ú©ÛŒ طرف آتے اور تمام علوم Ùˆ حکمت Ú©Û’ چشمہ سے بھرہ مند ھوتے تھے، سید الاھل کھتے ھیں:

کوفہ، بصرہ، واسط اور حجاز کے ھر قبیلہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو جعفر(علیہ السلام) بن محمد(علیہ السلام) کی خدمت میں بھیجا عرب کے اکثر بزرگان اور فارسی دوست بالخصوص اھل قم حضرت(علیہ السلام) کے علم کدے سے شرفیاب ھوئے ھیں۔[86]

 Ù…رحوم محقق، معتبر میں لکھتے ھیں: امام صادق(علیہ السلام) Ú©Û’ زمانے میں اس قدر علوم منتشر ھوئے کہ عقلیں حیران ھیں، رجا Ù„ Ú©ÛŒ ایک جماعت میں چار ہزار افراد Ù†Û’ حضرت(علیہ السلام) سے روایتیں نقل Ú©ÛŒ ھیں اور ان Ú©ÛŒ تعلیمات کےذریعہ کافی لوگوں Ù†Û’ مختلف علوم میں مھارت پیدا کی،یھاں تک کہ حضر ت(علیہ السلام) Ú©Û’ جوابات اورلوگوں Ú©Û’ سوالات سے چارسو کتابیں معرض وجود میں آگئیںکہ جن Ú©Ùˆ اصولاربعہ ماة کا نام دیا گیا۔ [87]شھید اوّل بھی کتاب ذکریٰ میں فرماتے ھیں: امام صادق علیہ السلام Ú©Û’ جوابات Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والے عراق Ùˆ حجاز اور خُراسان Ú©Û’ چار ہزار افراد تھے۔ [88]

 Ø­Ø¶Ø±Øª(علیہ السلام) Ú©Û’ مکتب Ú©Û’ برجستہ ترین دانشمند جو مختلف علوم منقول Ùˆ معقول Ú©Û’ ماھر تھے جیسے ھشّام بن Ø­Ú©Ù…ØŒ محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ھشام بن سالم، مومن طاق مفضل بن عمر، جابر بن حیان Ùˆ غیرہ۔

ان کی تصنیف جو اصول اربع مائةکے نام سے مشھور ھے جو کافی، من لا یحضر ہ الفقیہ،تہذیب،استبصار کی اساس و بنیاد ھے۔

امام صادق(علیہ السلام) کے شاگر د صرف شیعہ ھی نھیں تھے بلکہ اھل سنّت کے بزرگ دانشوروں نے بھی حضرت کی شاگردی اختیارکی تھی، ابن حجر ھیثمی اھل سنّت کے مصنف اس بارے میں لکھتے ھیں: فقہ وحدیث کے بزرگ ترین پیشوا جیسے یحییٰ بن سعد، ابن جریح مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابو حنیفہ، شعبی وایوب سجستانی وغیرہ نے حضرت(علیہ السلام) سے حدیثیں نقل کی ھیں ۔[89]

 Ø§Ø¨Ùˆ حنیفہ حنفی فرقہ Ú©Û’ پیشوا کھتے ھیں: ایک مدت تک جعفر(علیہ السلام) بن محمد Ú©Û’ پاس رفت Ùˆ آمدکی، میں ان کوھمیشہ تین حالتوں میں سے کسی حالت میں ضرور دیکھتا تھا یا نماز میں مشغول Ú¾Ùˆ تے تھے یا روزہ دار ھواکرتے تھے یا تلاوت قرآن کریم میں مصروف رھتے تھے میں Ù†Û’ کبھی نھیں دیکھا کہ انھوں Ù†Û’ بغیر وضو Ú©Û’ حدیث نقل Ú©ÛŒ ھو، [90]علم وعبادت اور پرھیزگاری میں جعفر(علیہ السلام) بن محمد(علیہ السلام) سے بر تر نہ آنکھوں Ù†Û’ دیکھا اور نہ کانوں Ù†Û’ سنا اور نہ کسی Ú©Û’ بارے میں دل میں یسا تصور پیدا ھوا۔[91]

آپ Ú©Û’ درس میں صرف ÙˆÚ¾ÛŒ لوگ شریک نھیں ھوئے کہ جنھوں Ù†Û’ بعد میں  مذاھب فقھی Ú©ÛŒ بنیاد رکھی بلکہ دور ودراز Ú©Û’ رھنے والے فلاسفرا ور فلسفہ Ú©Û’ طالب علم آپ Ú©Û’ درس میں حاضرھوتے تھے، انھوں Ù†Û’ اپنے امام(علیہ السلام) سے علوم حاصل کرنے Ú©Û’ بعد اپنے وطن ایسی درسگاھیں تشکیل دیں کہ جس میں مسلمان ان Ú©Û’ گرد جمع ھوتے تھے اور یہ لوگ معارف اھل بیت(علیہ السلام) سے لوگوں Ú©Ùˆ سیراب کرتے تھے اور تشیع Ú©Ùˆ فروغ دیتے تھے، جس وقت ابان بن تغلب مسجد بنی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تشریف لاتے تو لوگ اس ستون Ú©Ùˆ کہ جس سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ لگا تے تھے ان Ú©Û’ لئے خالی کردیتے تھے اور وہ لوگوں Ú©Û’ لئے حدیث نقل کرتے تھے، امام صادق(علیہ السلام) Ù†Û’ ان سے فرمایا:آپ مسجدنبوی میں بیٹھ Ú©Û’ فتویٰ دی جےمیں دوست رکھتا Ú¾ÙˆÚº کہ میرے شیعوں Ú©Û’ درمیان آپ جیسے شخص دیکھنے میں آئیں۔

 Ø§Ø¨Ø§Ù† Ù¾Ú¾Ù„Û’ شخص ھیں جنھوں Ù†Û’ علوم قرآن Ú©Û’ بارے میں کتاب تالیف Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور علم حدیث میں بھی انھیں اس قدر مھارت حاصل تھی کہ آپ مسجد نبوی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تشریف فرما ھوتے اور لوگ ا آکر آپ سے طرح طرح Ú©Û’ سوالات کرتے تھے اور مختلف جھت سے ان Ú©Û’ جوابات دیتے تھے مزید احادیث اھل بیت(علیہ السلام) کوبھی ان Ú©Û’ درمیان بیان کرتے تھے، [92]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 next