اولیائے الٰھی توسل

علی اصغر رضوانی


ترجمہ:  اقبال حیدر حیدری

 

توسل کے لغوی معنی:

خلیل بن احمد کھتے ھیں: ”توسل “ ، ”وسلت الی ربّی وسیلة“سے ماخوذ ھے یعنی کسی ایسے کام کو انجام دینا جس سے خداوندعالم کی قربت حاصل ھوتی ھو۔۔۔“([1]) ابن منظور افریقی کا کہنا ھے: ”وسیلہ اس چیز کو کھتے ھیں جس کے ذریعہ انسان اپنے مقصود و مطلوب تک پہنچنے کے لئے ہدایت حاصل کرسکے“([2])

توسل کے اصطلاحی معنی:

توسل سے مراد یہ ھے کہ انسان کسی شخص یا کسی چیز کو خداوندعالم کی بارگاہ میں واسطہ قرار دے جس کے ذریعہ انسان خداوندعالم کی قربت حاصل کرسکے“([3])

وھابیوں کے فتوے

۱۔ شیخ عبد العزیز بن باز (حجاز کے سابق مفتی) کا کہنا ھے: ”کسی کی عظمت یا حق کو واسطہ قرار دینا بدعت ھے، لیکن شرک نھیں ھے؛ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص کھے: اللّھم اِنّی اٴسئلک بجاہ اٴنبیائک اٴو بجاہ ولیّک فلان، اور بعبدک فلان، اٴو بحقّ فلان، اٴو برکة فلان“ ؛ یعنی پالنے والے! تجھے تیرے انبیاء کی عظمت کا واسطہ، یا تیرے فلاں ولی کا واسطہ، یا فلاں شخص کا واسطہ، یا فلاں شخص کے حق کا واسطہ، یا فلاں شخص کی برکت کا واسطہ، تو یہ تمام چیزیں کہنا جائز نھیں ھے ، بلکہ بدعت اور شرک آلود ھیں“([4])

۲۔ شیخ صالح بن فوزان کا کہنا ھے: ”جو شخص خداوندعالم کے خالق اور رازق ھونے پر ایمان رکھے، لیکن اپنے اور خدا کے درمیان کسی شخص کو واسطہ قرار دے تو اس نے گویا دین خدا میں بدعت قائم کی ھے۔۔۔ اور اگر (چند) واسطوں (یعنی ان کے جاہ و مقام) کے ذریعہ توسل کرے لیکن ان کی عبادت نہ کرے تو یہ کام حرام ،بدعت اور شرک ھے“۔([5])

۳۔وھابیوں Ú©Û’ فتووں Ú©Û’ مرکز Ù†Û’ توسل Ú©Û’ بارے میں ایک سوال Ú©Û’ جواب میں یوں تحریر کیا: ”پیغمبر اسلام یا ان Ú©Û’ علاوہ (دیگر انبیاء اور صالحین) Ú©ÛŒ ذات Ú©Ùˆ وسیلہ قرار دینا جائز نھیں Ú¾Û’ØŒ اسی طرح پیغمبر اکرم  یا ان Ú©Û’ علاوہ کسی دوسرے Ú©Û’ جاہ Ùˆ مقام اور عظمت Ú©Ùˆ وسیلہ قرار دینا حرام Ú¾Û’ØŒ کیونکہ یہ کام بدعت Ú¾Û’ØŒ اور پیغمبر اکرم  یا صحابہ Ú©Û’ ذریعہ اس سلسلہ میں کوئی Ø­Ú©Ù… بیان نھیں ھوا ھے۔۔۔“۔([6])

۴۔ ناصر الدین البانی صاحب کا کہنا ھے: ”میرا عقیدہ ھے کہ جو لوگ اولیاء اور صالحین وغیرہ کو وسیلہ قرار دیتے ھیں وہ راہِ حق سے منحرف ھیں۔۔۔“۔([7])

توسل کا فلسفہ

توسل یعنی اپنے اور اپنے مقصود Ú©Û’ درمیان وسیلہ اور واسطہ قرار دینا، اور وسیلہ Ú©ÛŒ دو قسمیں ھیں: کبھی وسیلہ مادی چیزیں ھوتی ھیں؛ جیسے پانی ØŒ کھانا وغیرہ، جن Ú©Û’ ذریعہ انسان اپنی بھوک Ùˆ پیاس مٹاتا Ú¾Û’ØŒ اور کبھی وسیلہ معنوی چیزیں ھوتی ھیں؛ جیسے گناہ، انسان اپنے گناھوں Ú©ÛŒ بخشش Ú©Û’ لئے پیغمبر اکرم  (ص) Ú©Û’ جاہ Ùˆ مقام اور ان Ú©ÛŒ عظمت کا واسطہ دیتا Ú¾Û’ ØŒ دونوں صورتوں میں وسیلہ ضروری Ú¾Û’ØŒ کیونکہ خداوندعالم Ù†Û’ جھان ہستی Ú©Ùˆ بھترین صورت میں پیدا کیا Ú¾Û’ØŒ جیسا کہ ارشاد ھوتا Ú¾Û’:  ((اٴلَّذِي اٴحْسَنَ کُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہُ))([8])ØŒ ”اس Ù†Û’ ھر چیز Ú©Ùˆ حسن Ú©Û’ ساتھ بنایا“۔

یہ کائنات، انسان کی ہدایت، ترقی اور تکامل کے لئے نظام علت و معلول اور اسباب و مسببات پر قائم ھے ، انسان کی عام ضرورتیں مادی اسباب و علل کی بنیاد پر پوری ھوتی ھیں، اسی طرح خداوندعالم کا معنوی فیض جیسے ہدایت و مغفرت بھی اسی خاص نظام کے تحت ھے، خداوندعالم کا حکیمانہ ارادہ یہ ھے کہ یہ تمام چیزیں خاص اسباب و علل کے ذریعہ انسانوں تک پہنچے، لہٰذا جس طرح مادی دنیا میں یہ سوال نھیں ھوسکتا کہ خداوندعالم نے سورج کے ذریعہ زمین کو کیوں نورانی کیا ھے؟خداوندعالم نے بغیر کسی واسطہ کے اس کام کو کیوں انجام نہ دیا؟ اسی طرح معنوی مسائل میں یہ سوال نھیں کیا جاسکتا کہ خداوندعالم اپنی مغفرت کو اپنے اولیاء کے وسیلہ سے کیوں بندوں تک پہنچاتا ھے؟

اس سلسلہ میں شھید مطھری([9]) فرماتے ھیں: ”خدا Ú©Û’ کام ایک نظام Ú©Û’ تحت ھوتے ھیں، لہٰذا اگر کوئی نظام خلقت پر توجہ نہ کرے تو ایسا شخص گمراہ Ú¾Û’ اسی وجہ سے خداوندعالم Ù†Û’ گناھگاروں Ú©Ùˆ Ø­Ú©Ù… دیا کہ رسول اکرم  (ص) Ú©Û’ بیت الشرف پر جائیں اور خود استغفار کرنے Ú©Û’ علاوہ آنحضرت  (ص) بھی ان Ú©Û’ لئے طلب مغفرت کریں، قرآن مجید میں ارشاد ھوتا Ú¾Û’:

 ((وَلَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَہُمْ جَاءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا))([10])



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next