امام علی علیہ السلام کی خلافت کے لئے پیغمبر(ص)کی تدبیریں



۲۔ اس زمانہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نماز کے لئے مسجد الحرام (خانہ کعبہ) میں جاتے تھے، ان کے پیچھے پیچھے علی علیہ السلام اور جناب خدیجہ جاتے تھے، اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ساتھ ملاٴ عام میں نماز پڑھتے تھے، جبکہ یہ اس وقت تھا کہ ان تین افراد کے علاوہ کوئی نماز نھیں پڑھتا تھا۔“[2]

عبّاد بن عبد اللہ کہتے ھیں:

”میں Ù†Û’ علی علیہ السلام سے سنا کہ انھوں Ù†Û’ فرمایا: میں خدا کا بندہ اور اس Ú©Û’ رسول کا برادر Ú¾ÙˆÚº اور میں Ú¾ÛŒ صدیق اکبر ھوں، میرے بعد یہ دعویٰ کوئی نھیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ جھوٹا اور تھمت لگانے والا ھو،  میں Ù†Û’ دوسرے لوگوں سے سات سال Ù¾Ú¾Ù„Û’ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ ساتھ نماز Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ Ú¾Û’[3]ابن صباغ مالکی اور ابن طلحہ شافعی وغیرہ نقل کرتے ھیں:

”رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)بعثت سے پھلے جب بھی نماز پڑھتے تھے، مکہ سے باھر پھاڑیوں میں جاتے تھے، تاکہ مخفی طریقہ سے نماز پڑھیں، اور اپنے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کو لے جایا کرتے تھے، اور دونوں ساتھ میں جتنی چاہتے تھے؛ نماز پڑھتے تھے اور پھر واپس آجایا کرتے تھے۔“[4]

Û³Û”  امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ان دنوں Ú©ÛŒ اس طرح توصیف فرماتے ھیں:

” وقد علمتم موضعی من رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)بالقرابة القریبة، و المنزلة الخصیصة۔ وضعنی فی حجرہ و اٴنا ولد یمضّنی إلی صدرہ، و یکنفنی إلی فراشہ، و یمسّنی جسدہ و یشمّنی عرفہ و کان یمضغ الشّیء ثمّ یلقمنیہ۔ وما وجدلی کذبةّ فی قول، ولا خطلةّ فی فعل۔

 Ùˆ لقد قرن الله بہ(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)من لدن اٴن کان فطیماّ اٴعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طریق المکارم، Ùˆ محاسن اٴخلاق العالم لیلہ Ùˆ نھارہ۔ Ùˆ لقد کنت اٴتّبعہ اتّباع الفصیل اٴثر اٴمّہ یرفع Ù„ÛŒ فی کلّ یوم من اٴخلاقہ علماً ویاٴمرنی بالاقتداء بہ۔

 Ùˆ لقد کان یجاور فی کلّ سنة بحراء فاٴراہ Ùˆ لا یراہ غیری۔ Ùˆ لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ùˆ خدیجة Ùˆ اٴنا ثالاھما۔ اٴری نورالوحی Ùˆ الرّسالة، Ùˆ اٴشمّ ریح النّبوّة Û”

و لقد سمعت رنّة الشّیطان حین نزل الوحی علیہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، فقلت یا رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ما ہذہ الرّنّة؟ فقال ہذا الشیطان اٴیس من عبادتہ۔إنّک تسمع ما اٴسمع و تری ما اٴری إلّا اٴنّک لست بنبیّ۔ و لکنّک وزیر و إنّک لعلی خیر“[5]

”تمھیں معلوم ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے مجھے کس قدر قریبی قرابت اور مخصوص منزلت حاصل ھے، انھوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں اس طرح جگہ دی کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے، اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے، اپنے کلیجہ سے لگاکر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے سرفراز فرمایا کرتے تھے اور غذا کو اپنے دانتوں سے چباکر کر مجھے کھلایا کرتے تھے، نہ انھوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ میری کسی عمل میں غلطی دیکھی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next