امام علی علیہ السلام کی خلافت کے لئے پیغمبر(ص)کی تدبیریں



”بس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ھر گز صاحبان ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کر دیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھو جائیں۔“

Û³Û”  وصیت Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ کا Ø­Ú©Ù…

جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے دیکھ لیا کہ لوگوں کو لشکر اسامہ کے ساتھ مدینہ سے باھر بھیجنے کی تدبیر ناکام ھوگئی تو آپ نے طے کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں اپنی ۲۳ سالہ زندگی میں جو کچھ لوگوں کے سامنے بیان کیا ھے سب کو ایک وصیت نامہ میں لکھ دیا جائے۔ اسی وجہ سے آپ نے بروز جمعرات، اپنی وفات سے چند روز قبل جبکہ آپ بستر پر لیٹے ھوئے تھے، اور مختلف گروھوں کا مجمع آپ کے حجرے میں جمع تھا، مجمع سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا: ”قلم و کاغذ لے آؤ تاکہ میں ایسی چیز لکھ دوں جس سے میرے بعد گمراہ نہ ھو“۔ چنانچہ بنی ھاشم اور پردہ کے پیچھے بیٹھی ھوئی ازواج رسول اس بات پر اصرار کررھی تھیں کہ رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو وصیت لکھنے کے لئے قلم و کاغذ دیا جائے؛ لیکن وہ گروہ جس نے میدان عرفات میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو اپنے بعد بھی خلیفہ معین کرنے نہ دیا وھی گروہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے حجرے میں بھی جمع تھا اور اس نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اس حکم کو بھی عملی ھونے سے روک دیا، عمر فوراً اس بات کی طرف متوجہ ھوئے کہ اگر یہ وصیت لکھی گئی تو خلافت غصب کرنے کے تمام نقشوں پر پانی پھر جائے گا، لیکن دوسری طرف پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مخالفت مناسب دکھائی نھیں دے رھی تھی۔

لہٰذا انھوں نے ایک دوسرا منصوبہ بنایا اور اس نتیجہ پر پھنچے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف ایک ایسی نسبت دی جائے جس کی وجہ سے وصیت نامہ لکھنا خود بخود بے اثر ھوجائے، اسی وجہ سے انھوں نے لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے کھا: ”تم لوگ قلم و کاغذ نہ لاؤ کیونکہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ہذیان کہہ رھے ھیں! کتاب خدا ھمارے لئے کافی ھے“، جیسی ھی اس جملہ کو عمر کے طرفداروں یعنی بنی امیہ اور قریش نے سنا تو انھوں نے بھی اس جملہ کی تکرار کی، لیکن بنی ھاشم بہت نارض ھوئے اور ان کی مخالفت میں کھڑے ھوگئے، پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس ناروا تھمت کہ جس نے آپ کی تمام شخصیت اور عظمت کو مجروح کردیا تھا، کیا کرتے؟ اس کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا کہ ان کو اپنے مکان سے نکال دیں، چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”میرے پاس سے چلے جاؤ، پیغمبر کے پاس جھگڑا نھیں کیا جاتا۔“[25]

تعجب کی بات تو یہ ھے کہ عمربن خطاب کے طرفدار اور کلی طور پر مدرسہ خلفاء نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف عمر کی اس ناروا نسبت کو چھپانے کے لئے بہت کوشش کی ھے، چنانچہ جب لفظ ”ہجر“ یعنی ہذیان کو نقل کرتے ھیںتو اس کی نسبت مجمع کی طرف دیتے ھیں اور کہتے ھیں: ”قالوا: ہجر رسول الله“، اور جب اسی واقعہ کی نسبت عمر کی طرف دیتے ھیں تو کہتے ھیں: ”قال عمر: انّ النبیّ قد غلب علیہ الوجع۔“

لیکن کتاب ”السقیفہ“ میں ابوبکر جوھری کا کلام مطلب کو واضح کردیتا ھے، کہ ہذیان کی نسبت عمر کی طرف سے شروع ھوئی، بعد میں عمر کے طرفداروں نے اس کی پیروی میں یھی نسبت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف دی ھے، چنانچہ جوھری اس نسبت کو عمر کی طرف سے یوں بیان کرتے ھیں:

”عمر نے ایک ایسا جملہ کھا جس کے معنی یہ ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر بیماری کے درد کا غلبہ ھے“، پس اس سے معلوم ھوتا ھے کہ عمر کے الفاظ کچھ اور تھے جن کی قباحت کی وجہ سے نقل معنی کیا ھے، افسوس کہ بخاری اور مسلم وغیرہ نے روایت کو اصلی الفاظ میں بیان نھیں کیا ھے، بلکہ اس جملہ کا صرف مضمون بیان کیا ھے، اگرچہ ”النھایة“ میں ابن اثیر اور ابن ابی الحدید کے کلام سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ہذیان کی نسبت براہ راست عمر نے دی تھی۔

بھر حال پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مخالف گروہ کو باھر نکالنے کے بعد خالص اصحاب کے مجمع میں اپنی وصیت بیان کی، اور سلیم بن قیس کی عبارت کے مطابق بعض اصحاب کے باوجود اھل بیت (علیھم السلام) میں سے نام بنام وصیت کی اور اپنے بعد ھونے والے خلفاء کے نام بیان کئے[26]

اھل سنت نے بھی اپنی حدیث کی کتابوں میں اس وصیت کی طرف اشارہ کیا ھے، لیکن اصل موضوع کو مبھم چھوڑ دیا ھے۔

ابن عباس اس حدیث کے آخر میں کہتے ھیں: ”آخر کار پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے تین چیزوں کی وصیت کی: ایک یہ کہ مشرکین کو جزیرة العرب سے باھر نکال دو، دوسرے یہ کہ جس طرح میں نے قافلوں کو داخل ھونے کی اجازت دی رکھی تھی، تم بھی اجازت دینا، لیکن تیسری وصیت کے بارے میں (ابن عباس) نے خاموشی اختیار کی، اور بعض دوسری احادیث میں بیان ھوا ھے کہ (ابن عباس نے کھا کہ) میں تیسری وصیت بھول گیا ھوں[27]

ایسا کبھی نھیں ھوا کہ ابن عباس نے کسی حدیث کے بارے میں کھا ھو: میں حدیث کے فلاں حصہ کو بھول گیا ھوں، یا اس کو نقل نہ کریں، اس کی وجہ یہ ھے کہ ابن عباس نے عمر بن خطاب کے ڈر کی وجہ سے اس تیسری وصیت کو جو حضرت علی علیہ السلام اور اھل بیت علیھم السلام کی ولایت، خلافت اور امامت کے بارے میں تھی، بیان نھیں کیا، لیکن چونکہ ابن عباس، عمر سے ڈرتے تھے اس وجہ سے اس وصیت کو بیان نہ کیا، جیسا کہ وہ عمر بن خطاب کے زمانہ میں ”عول و تعصیب“[28]کے مسئلہ میں اس کی مخالفت نہ کرسکے، یھاں تک کہ عمر کے انتقال کے بعد حق مسئلہ بیان کیا، اور جب ان سے اس مسئلہ کے حکم میں تاخیر کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کھا: میں عمر بن خطاب کے نظریہ کی مخالفت سے ڈرتا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next