امام علی علیہ السلام کی خلافت کے لئے پیغمبر(ص)کی تدبیریں



تعجب کی بات ھے کہ جب ”مسند احمد“ میں مُسند جابر بن سمرہ کو دیکھتے ھیں، تو اس میں جابر کے ایسے الفاظ ملتے ھیں جو اس سے پھلے نھیں دیکھے گئے، جابر بن سمرہ کی بعض روایتوں میں بیان ھوا ھے:

جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بات یھاں تک پھنچی کہ ”میرے بعد بارہ جانشین ھوں گے“ تو لوگوں نے چلانا شروع کردیا، اس کے علاوہ بعض دوسری روایت میں بیان ھوا ھے کہ ”لوگوںنے تکبیر کھنا شروع کردی“، نیز بعض دیگر روایتوں میں بیان کیا کہ ”لوگوں نے شور و غل کرنا شروع کردیا“، او رآخر کار بعض روایت میں یہ بھی ملتا ھے کہ ”لوگ کبھی اٹھتے تھے اور کبھی بیٹھتے تھے۔“

ایک راوی سے یہ تمام روایتیں (اپنے اختلاف کے باوجود) اس بات میں خلاصہ ھوتی ھیں کہ مخالف گروہ نے متعدد ٹولیوں کو اس بات کے لئے تیار کر رکھا تھا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو اپنے بعد کے لئے خلافت و جانشینی کا مسئلہ بیان کرنے سے روکا جائے۔ اور ان ٹولیوں نے وھی کیا چنانچہ ھر ایک نے کسی نہ کسی طرح سے نظام جلسہ کو درھم و برھم کردیا، اور اپنے مقصد میں کامیاب ھوگئے۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس عظیم مجمع میں خلافت کے مسئلہ کو بیان نہ کرسکے اور مایوس ھوگئے، اور دوسری جگہ کے بارے میں سوچنے لگے تاکہ امام علی علیہ السلام کی خلافت کو عملی طور پر ثابت کریں، اسی وجہ سے اعمال حج تمام ھونے اور حاجیوں کے الگ الگ ھونے سے پھلے لوگوں کو غدیر خم میں جمع کیا اور امامت و خلافت کے مسئلہ کو بیان کرنے سے پھلے چند چیزوں کو مقدمہ کے طور پر بیان کیا، اور لوگوں سے بھی اقرار لیا، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)جانتے تھے کہ اس بار بھی منافقین کی ٹولی تاک میں ھے، تاکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے مسئلہ کو بیان نہ ھونے دے،لیکن آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ایک ایسی عملی تدبیر سوچی جس کی بنا پر منافقین کے نقشہ پر پانی پھر گیا، اور وہ یہ ھے کہ آپ نے حکم دیا کہ اونٹوں کے کجاووں کو جمع کیا جائے، اور ایک کے اوپر ایک کو رکھا جائے (تاکہ ایک بلند جگہ بن جائے) اس موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور حضرت علی علیہ السلام اس منبر پر تشریف لے گئے، اس طرح سبھی آپ دونوں کو دیکھ رھے تھے، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خطبہ میں چند نکات کو بیان کرنے اور حاضرین سے اقرار لینے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ کو بلند کیا اور لوگوں کے سامنے خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کا اعلان کیا۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی اس تدبیر کے سامنے کہ جس کا اندازہ پھلے سے منافقین کو نہ تھا ،منافقین کچھ نہ کرسکے اور دیکھتے ھی رہ گئے، اور کچھ ردّ عمل ظاھر نہ کرسکے۔

Û²Û”  لشکر اسامہ Ú©Ùˆ روانہ کرنا

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)بستر بیماری پر ھیں، اس حال میں (بھی) اپنی امت کے لئے سخت فکر مند ھیں؛ اختلاف اور گمراھی کے سلسلہ میں فکر مند؛ اس چیز سے رنجیدہ کہ ان کی تمام تدبیروں کو خراب کردیا جاتا ھے، اس چیز سے غم زدہ کہ نبوت و رسالت اور شریعت میں انحراف کیا جائے گا، خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پریشان و مضطرب ھیں، روم جیسا بڑا دشمن اسلامی سرحدوں پر تیار ھے تاکہ جیسے ھی موقع دیکھے ایک خطرناک حملہ کے ذریعہ مسلمانوں کو شکست دیدے۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مختلف ذمہ داریاں ھیں؛ ایک طرف تو بیرونی دشمن کا مقابلہ ھے،لہٰذا آپ نے بہت تاکید کے ساتھ ان سے مقابلہ کے لئے ایک لشکر کو روانہ کیا، دوسری طرف آپ حقیقی جانشین اور خلیفہ کو ثابت کرنا چاہتے تھے، لیکن کیا کریں؟ نہ صرف یہ کہ بیرونی دشمن سے دست بہ گریباں ھیں بلکہ اندرونی دشمن سے بھی مقابلہ ھے جو خلافت و جانشینی کے مسئلہ میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی تدبیروں کو عملی جامہ پھنانے میں مانع ھے، پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنی تدبیر کو عملی کرنے کے لئے حکم دیتے ھیںکہ وہ تمام افراد جو جھاد اور لشکر اسامہ میں شرکت کرنے کی تیاری رکھتے ھیں مدینہ سے باھر نکلیں اور ان کے لشکر سے ملحق ھوجائیں، لیکن آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ملاحظہ فرمایا کہ بہت سے اصحاب بے بنیاد بھانوں کے ذریعہ اسامہ کے لشکر میں شریک نھیں ھورھےھیں، کبھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر اعتراض کرتے ھیںکہ کیوں آپ نے ایک جوان اور ناتجربہ کار انسان، اسامہ کو امیر لشکر بنا دیا ھے جبکہ خود لشکر میں صاحب تجربہ افراد موجود ھیں؟

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان کے اعتراض کے جواب میں کھا کہ اگر آج تم لوگ اسامہ کی سرداری پر اعتراض کررھے ھو تو اس سے پھلے تم ان کے باپ کی سرداری پر بھی اعتراض کرچکے ھو، آپ کی یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد مدینہ سے نکل کر اسامہ کے لشکر میں شامل ھوجائے، نوبت یہ پھنچ گئی کہ جب پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بعض صحابہ منجملہ عمر، ابوبکر، ابوعبیدہ، سعد بن ابی وقاص وغیرہ کی نافرمانی کو دیکھا کہ یہ لوگ اسامہ کے لشکر میں داخل ھونے میں میرے حکم کی مخالفت کررھے ھیں تو ان پر لعنت کرتے ھوئے فرمایا:

”لعن الله من تخلّف جیش اسامة“[21]

”خدا لعنت کرے ھر اس شخص پر جو اسامہ کے لشکر میں داخل ھونے کی مخالفت کرے۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next