شیعه منابع پر ایک سرسری نظر



”شیعہ در تاریخ “ شیعوں کے اندرونی فرقوں کے بارے میں یک اچھا منبع و ماخذ ھے بالخصوص شیعوں کے فرقوں کے وجود میں آنے کے علل و اسباب کو بیان کیاگیا ھے اور اچھا تجزیہ و تبصرہ کیا ھے۔

یہ کتاب تاریخ تشیع کے عنوان سے بھت زیادہ جامع نھیں ھے کیونکہ کھیں کھیں ایسی بحثیں جوبیان ھوئی ھیں جو تاریخ تشیع کے دائرے سے خارج ھیں، جیسے وہ بحثیں تاریخ خلافت اور خوارج کے بارے میں پیش کی گئی ھیں وہ تاریخ تشیع سے بالکل خارج ھیں۔

< ۶> جھاد ا لشیعہ

تاریخ شیعہ کے منابع میں سے ایک کتاب جھاد شیعہ ھے اگر چہ اس کی اصلی بحثیں شیعہ اور شیعہ فوجیوں کے جھاد و انقلاب کے بارے میں ھیں، اس کتاب کی موٴلفہ محترمہ ڈاکٹر سمیرہ مختار لیثی(استا دعین شمس یونیورسٹی، مصر)ھیں کتاب جھاد شیعہ دارالجیل مطبع بیروت وزیری سائزمیں بصورت مجلد ۱۳۹۶ھ میں شائع ھوئی جو ۴۲۴ صفحات پر مشتمل ھے، یہ کتاب مقدمہ کے بعد پانچ ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ھے، اس کتاب کا موضوع جھاد شیعہ ھے کہ اس کتاب میں تقریباً دوسری صدی ھجری کے آخر تک کے حالات کو مورد بحث و بررسی قراردیا گیا ھے، بہ عبارت دیگر: اس کتاب کی موٴلفہ ایک طرف عباسیوں کے خلاف شیعوں کی فوجی تحریک اور جھاد،نیز علویوں کے قیام اور ان کی شکست کے اسباب کو بیان کرتی ھیں، شیعہ فرقوں، ان کی تحریکیں،ان کے اجتماعی اور سیاسی موقف کو جو اس زمانہ میں موجود تھے بیان کرتی ھیں دوسری طرف خلفا کی سیاست جو ائمہ اطھارعلیھم السلام اور شیعوں کے بارے میں تھی اس پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ھے۔ عام شیعہ تاریخ کے مباحث پھلے باب کے ایک حصہ میں بیان کئے ھیں جیسے: شیعہ درلغت، مفاھیم شیعہ شیعوں کے وجود میں آنے کی تاریخ، امام حسین(علیہ السلام) کے جھاد کا اثر، عراق میں شیعوں کا جھاد، شیعہٴ کیسانیہ کا وجود، شیعہٴ امامیہ کے فرقے نیز تحقق شیعیت اور تاریخ شیعہ کے بارے میں مختلف نظریوں کو بیان کیا ھے۔ تنھا ایک اعتراض جو اس کتاب پر وارد ھوتا ھے وہ یہ ھے کہ انھوںنے ائمہ اطھار علیھم السلام کے سیاسی نظریات کو اپنے لحاظ سے بیان کیاھے چونکہ وہ شیعہ نھیں تھیں اسی وجہ سے وہ ائمہ کے سیاسی تفکرکے اصول کو نھیں سمجھ سکیں اور اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام کے بعدوہ امامت کے مبانی اور اصول کور وحانی وعلمی امامت بتاتی ھیں وہ ان(بقیہ نو ائمہ)کی روش کو امیرالمومنین(علیہ السلام)، امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کی روش سے جدا جانتی ھیں۔[6]

<۷>ایران میں تاریخ تشیّع اپنے آغازسے ساتویں صدی ھجری تک

اس کتاب کے لکھنے والے جناب رسول جعفریان، حوزہ علمیہ قم کے ایک بزرگ محقق ھیں، یہ کتاب اپنی صنف میں محققا نہ و بے نظیر ھے موٴلف مذکورکی بھت سی تاٴلیفات میں ایک بھترین تالیف ھے نیز تاریخ تشیع پر تحقیق کے لئے بھترین منابع میں سے ایک ھے، یہ کتاب تاریخ کی معلومات کے حوالہ سے نھایت قیمتی ھے کہ تاریخ تشیع میں کوئی بھی محقق اس کتاب سے بے نیاز نھیں ھو سکتا، اس کتاب کی خوبیوں میں سے ایک خوبی اس کے متن کی بے نیازی ھے اگر کوئی نقص اس میں پایا بھی جاتا ھے تو اس کی شکل و صورت کے اعتبار سے ھے مثلاًجوحا شیے ھیں وہ فنی اعتبار سے اعلیٰ اور معیاری نھیں ھیں، دوسرے یہ کہ بعض مطالب جیسے منابع پر تنقید و تبصرہ خود مطالب کے درمیان ذکر کیا گیا ھے جو پڑھنے والوں کے لئے دشواری کا سبب ھوا ھے بھتر یہ تھا کہ ان مطالب کو علیحدہ اسی عنوان سے لکھا جاتا یا کم از کم حاشیہ میں جدا گانہ لکھا جاتا تا کہ اصل کتاب کا امتیاز اپنی جگہ باقی رھتا۔

 Ø¹Ù…ومی منابع:

تاریخ تشیع کے بارے میں بعض خصوصی کتابوں کی مختصر تحقیق کے بعد تاریخ کے عمومی منابع سے متعلق ھم تحقیق کریں گے، موضوع کی حیثیت سے عمومی منابع اس طرح ھیں۔

<Û±> تاریخ عمومی 

 <Û²> ائمہ(علیہ السلام) Ú©ÛŒ زندگانی

<۳> کتب فتن وحروب

<۴>کتب رجال وطبقات

<۵>کتب جغرافیہ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next