جھوٹ کے بارے میں آٹھ نکات



            رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ Ùˆ آلہ وسلم کا ارشاد ہے :

''ومن صام شھر رمضان فی انصات و سکوت وکفّ سمعہ و بصرہ ولسانہ و فرجہ و جوارحہ من الکذب والحرام والغیبة تقرباً قربة اﷲ حتی تمسّ رکبتاہ رکبتی ابراھیم خلیل الرحمان۔

''جو کوئی ماہ ِرمضان میں سکوت اور خاموشی کے ساتھ روزہ رکھے' قربت( الیٰ اﷲ)کی نیت سے اپنے کان ' آنکھ ' زبان 'شرم گاہ اور اعضا کو جھوٹ' حرام هے.

 

روزے کا فلسفہ

            روزہ ' تزکیہ Ùˆ تہذیب ِنفس اور سیر Ùˆ سلوک ِالیٰ اﷲ Ú©Û’ راستوں میں سے بہترین راستہ ہے Û” اگر شرعی احکام Ú©Û’ مطابق روزہ رکھا جائے تو دل سے غفلت اور گناہ کا غبار دھو کر اسے پاک Ùˆ پاکیزہ اور نورانی بنا دیتا ہے 'خانۂ دل سے شیاطین Ú©Ùˆ نکال باہر کرتا ہے اور اسے ملائکہ Ú©Û’ داخلے اور معرفت ' حکمت اور یقین Ú©ÛŒ روشنی Ú©Û’ لئے تیار کرتا ہے۔ ایسا ہی شخص (حقیقی)روزہ دار ہے جس Ù†Û’ خدا Ú©ÛŒ دعوت Ú©Ùˆ قبول کیا ہے اور الٰہی نعمات Ùˆ انعامات Ú©Û’ حصول Ú©ÛŒ صلاحیت Ùˆ قابلیت اپنے اندر پیدا Ú©ÛŒ ہے۔ اور یقینا ایسا ہی روزہ دار پروردگار ِ مہربان Ú©Û’ فیوضات سے مستفید ہو گا۔

            روزے کا دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ صاحب ِحیثیت اور دولتمند افراد روزہ رکھ کر بھوک کا ذائقہ چکھیں اوران Ú©Û’ دل میںمحتاجوں کا خیال پیدا ہو اور وہ ان لوگوںکی مدد Ú©Û’ بارے میں سوچیں جن Ú©ÛŒ اکثریت غذا Ú©ÛŒ Ú©Ù…ÛŒ اور قلت کا شکار رہتی ہے ۔احادیث میں بھی اس موضوع Ú©ÛŒ جانب اشارہ ہوا ہے:

''سال ھشام بن الحکم اباعبداﷲ علیہ السلام عن علة الصیام ' فقال : انّما فرض اﷲ الصیام لیستوی بہ الغنی و الفقیر' و ذلک ان الغنی لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیرلانّ الغنی کلّما ارادشیئاً قدر علیہ ' فاراد اﷲ ان یسوی بین خلقہ وان یذوق الغنی مسّ الجوع والالم یرقّ علی الضعیف ویرحم الجائع''

''ہشام بن حکم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روزے کے فلسفے کے بارے میں سوال کیا : حضرت نے ان کے جواب میں فرمایا : خدا نے روزے کو اس لئے واجب کیا ہے کہ دولتمند اور فقیر باہم مساوی ہوجائیں۔ کیونکہ دولتمند

            امام علی  ''تقویٰ'' Ú©Ùˆ قوت ارادی Ú©ÛŒ تقویت اور اپنے نفس پر غلبے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں ' تقویٰ ہی گناہ اور ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارے Ú©Û’ سلسلے میں نمایاں اور موثر کردار رکھتا ہے۔ آپ  فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ گناہ اور لغزشیں ان سر Ú©Ø´ اور بے لگام Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘ÙˆÚº Ú©ÛŒ مانند ہیں' جن پر گناہگاروں Ú©Ùˆ سوارکر دیا گیا ہو اور ان Ú©ÛŒ لگام Ú©Ùˆ ڈھیلا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا گیا ہو اور وہ اپنے سوار Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر جہنم میں کود پڑیں ۔جبکہ ''تقویٰ''ان رام Ú©ÛŒ ہوئی سواریوں Ú©ÛŒ مانند ہے جن پر ان Ú©Û’ مالکوں Ú©Ùˆ سوار کیا گیا ہو اور ان Ú©ÛŒ لگام ان Ú©Û’ ہاتھوں میں دے دی گئی ہو 'اور وہ اپنے سواروں Ú©Ùˆ اطمینان اور سکون Ú©Û’ ساتھ جنت میں پہنچا دیں Û” (نہج البلاغہ Ù€ خطبہ ١٦)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next