دنیا کی حقیقت حضرت علی(علیه السلام)کی زبانی



حضرت علی علیہ السلام نے دنیا کی حقیقت کو دنیا والوں کے سامنے اس طرح آشکار اور روشن کرکے اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب ہٹا دی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو پہچان سکتا ہے ۔

لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ '' و اﷲ ما دنیاکم عندی الاکسَفْرٍ علیٰ منھل حلّوا ، اذ صاح بھم سائقھم فارتحلوا ، و لا لذاذاتُھا فی عینی الا کحمیم أشربُہ غسّاقا ، و علقم أتجرع بہ زُعافا، وسمّ أفعاۃٍ دِھاقاً، وقَلادۃٍ من نار '' (۱)

''خدا کی قسم تمھاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں ،اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں ،اور اس کی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اورگندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مردنی کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے''

اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہراہو '' سفرعلی منھل حلوا''اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ مولائے کائنات (ع) نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے :

( اذ صاح بہم سائقہم فارتحلوا )

'' جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں''

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کےلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات (ع)کی نگاہ میں گرم، بدبوداراور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے ۔

''جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیر المومنین (ع)کے اوصاف و خصائل و معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خوددیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میںلئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کررہے ہیںاس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں :

'' یادنیاالیک عنی، أبی تعرّضتِ؟ أم الیّ تشوّقتِ ؟ ھیھات !! غرّی غیری لا حاجۃ لی فیکِ ،قد طلقتک ثلاثاً، لارجعۃ فیھا:فعیشک قصیر، و خطرک کبیر، و املک حقیر، آہ من قلّۃ الزاد، و طول الطریق '' (۲)



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next