دنیا کی حقیقت حضرت علی(علیه السلام)کی زبانی



'' دنیاک مثل الشمس تدنی الیک الضوء لکن دعوۃَ المہلکِ ان أنت أبصرت الیٰ نورھا تَعْشُ وان تُبصربہ تدرک ''

تمہاری دنیا کی مثال اس سورج جیسی ہے جس کی ضیاء تمہارے سامنے ہے لیکن ایک مہلک انداز میں کہ اگر تم اس (نور)کی طرف دیکھو گے تو تمہاری نگاہ میں خیرگی پیدا ہوجائیگی اور اگر اس کے ذریعہ کسی چیز کو دیکھنا چاہو گے تو اسے دیکھ لو گے .

اسی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر مولائے کائنات (ع)نے یہ ارشاد فرمایا ہے :

(۔۔۔جعل لکم أسماعاً لتعی ما عناھا ، أبصاراً لتجلوعن عشاھا ۔۔۔ و کأن الرشدَ فی احراز دنیاھا ۔۔۔ ) (۲۹)

''اس نے تمہیں کان عطا کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں ۔۔۔اور تمہارے لئے ماضی میں گذر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں ۔۔۔لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا۔۔۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی ۔۔۔ تو کیا آجتک کبھی اقرباء نے موت کودفع کیا ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے (ہرگز نہیں) مرنے والے کو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہاچھوڑدیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔۔۔اور آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹادیاہے اور روز گار کے حادثات نے نشانات کو محو کردیا ہے ۔۔۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء واجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جارہے ہو اور انہیں کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہو اور انہیں کے راستے پر گامزن ہو؟حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کامخاطب ان کے علاوہ کوئی او ر ہے اور شاید ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کرلینے میں ہے ''

اس بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

'' وانما الدنیا منتھیٰ بصر الاعمیٰ، لا یبصر مما وراء ھا شیأاً، والبصیر ینفذھا بصرہ، ویعلم أن الدار ورائھا، فالبصیر منھا شاخص، والأعمیٰ الیھا شاخص، والبصیر منھا متزود، والأعمیٰ لھا متزود'' (۳۰)

''یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جبکہ صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے بصیر اس سے زادراہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھاکرنے والاہے''

واقعاً اندھا وہی ہے جس کی نگاہیں دنیا سے آگے نہ دیکھ سکیں اور وہ اس سے وابستہ ہوکر رہ جائے (اس طرح دنیا اندھے کی نگاہ کی آخری منزل ہے )لیکن صاحب بصیرت وہ ہے جسکی نگاہیں ماوراء دنیا کا نظارہ کرلیتی ہیں اور اس کی عاقبت کو دیکھ لیتی ہیں آخرت اس کی نظروں کے سامنے ہے لہٰذا (اس کی نگا ہیں )اور اس کے قدم اس دنیا پر نہیںٹھہرتے بلکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرکے آ گے کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔

ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی مذکورہ شرح کے علاوہ ایک اور حسین تشریح کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔دنیا اور مابعد دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اندھا کسی خیالی تاریکی کا تصور کرتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس تاریکی،کو محسوس کررہا ہے جبکہ وہ واقعاً اسکاا حساس نہیں کرپاتا بلکہ وہ عدم ضیاء ہے (وہاں نور کا وجود نہیں ہے) بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص کسی تنگ و تاریک گڑھے میں گھس جائے اور تا ریکی کا خیال کرے مگر اسے کچھ نہ دکھائی دے اور اس کی نگاہیںکسی چیز کا مشاہدہ کرتے وقت کام نہیں کرپاتیں مگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تاریکی وظلمت کو دیکھ رہا ہے ۔لیکن جو شخص روشنی میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اس کی بصارت (نگاہ)کام کرتی ہے اور وہ واقعاًمحسوسات کو دیکھتا ہے ۔چنانچہ دنیا اور آخرت کی بھی بالکل یہی حالت ہے :کیونکہ اہل دنیا کی نگاہوں کی آخری منزل اور ان کی پہنچ صرف ان کی دنیا تک ہے ۔او ر ان کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ واقعاً انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کے حواس کسی چیز کے اوپر کام کرتے ہیں ۔ لیکن اہل آخرت کی نگاہیں بہت کارگر ہیں اور انہوں نے آخرت کو باقاعدہ دیکھ لیا ہے لہٰذا دنیا پر ان کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی ہیں ،تو در حقیقت یہی حضرات صاحبان بصارت ہیں'' (۳۱)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next