دنیا کی حقیقت حضرت علی(علیه السلام)کی زبانی



''گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاہ میں حقیر تھی ''

دنیا کی توصیف میں آپ فرماتے ہیں :

( ما أصف من دار أوّلھا عناء ، و آخرھا فناء ، فی حلالھا حساب ، و فی حرامھا عقاب ، من استغنیٰ فیھا فُتن ، و من افتقر فیھا حزن ) (۲۶)

''میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جسکی ابتدا رنج وغم اور انتہا فناونیستی ہے اس کے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے ۔جو اس میںغنی ہوجاتاہے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور جو فقیر ہوجاتاہے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجاتاہے ''

یہی رخ دنیا کا باطنی رخ اور وہ دقت نظر ہے جو دنیا کے باطن میں جھانک کردیکھ لیتی ہے ۔

پھر آپ فرماتے ہیں :

(من ساعاھافا تتہ،ومن قعدعنھاواتتہ) (۲۷)

''جو اس کی طرف دوڑلگاتاہے اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہوجاتی ہے ''

دنیا سے انسانی لگاؤ کے بارے میں خداوند عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑلگائے گا اور اس کے لئے سعی کریگا اور اس کی قربت اختیار کریگا تو وہ اسے تھکاڈالے گی۔اور اس کی طمع کی وجہ سے اس کی نگاہیں مسلسل اس کی طرف اٹھتی رہیں گی۔چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہوجائیگی۔اور وہ اس کے لئے کوشش شروع کردیگا مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اس کے پیچھے دوڑلگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اسکا مقصد ملنے والا نہیں ہے ۔

البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبروحوصلہ سے کام لیکر میانہ روی اختیار کریگا تو دنیا خود اس کے قدموں میں آکر اس کی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہونچ جائے گا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next