دنیا کی حقیقت حضرت علی(علیه السلام)کی زبانی



پھر آپ ارشاد فرماتے ہیں:

( من أبصر بھا بصّرتہ ، و من أبصر الیھا أعمتہ ) (۲۸)

''جو اسکو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتارہے اسے بینابنادےتی ہے اور جو اسکو منظور نظر بنالےتاہے اسے اندھا کردیتی ہے ''

سید رضی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے: کہ اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی ( من ابصر بھا بصرتہ ) میں غور وفکر کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے ۔

مولائے کائنات (ع) نے دنیا کے بارے میں نگاہ کے ان دونوں زاویوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے ایک یہ ہے ''کہ دنیا کو ذریعہ بناکر آگے دیکھا جائے ''اس نگاہ میں عبرت پائی جاتی ہے اور دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ انسان دنیا کو اپنا منظور نظر اور اصل مقصد بنالے اس نگاہ کا نتیجہ دھوکہ اور فریب ہے جسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے :

یہ دنیا کبھی انسان کے لئے ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ مختلف تصویریں دیکھتا ہے اور کبھی اس کی نظر خود اسی دنیا پر لگی رہتی ہے ۔

چنانچہ جب دنیا انسان کے لئے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے جس میں جاہلیت کے تمدن اور زمین پر فساد برپا کرنے والے ان متکبرین کا چہرہ بخوبی دیکھ لیتا ہے جن کو خدا نے اپنے عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھادیا ...تو یہ نگاہ ،عبرت ونصیحت کی نگاہ بن جاتی ہے ۔

لیکن جب دنیا انسان کے لئے کل مقصد حیات کی شکل اختیار کرلے اور وہ ہمیشہ اسی نگاہ سے اسے دیکھتا رہے تو دنیا اسے ہویٰ وہوس اور فتنوں میں مبتلا کرکے اندھا کردیتی ہے اور وہ اسے بہت ہی سر سبز و شیرین دکھائی دیتی ہے ۔

اس طرح پہلی نگاہ میں عبرت کا مادہ پایا جاتا ہے اور دوسری نظر میں فتنہ وفریب کا مادہ ہوتا ہے ۔پہلی نگاہ میں فقط بصیرت پائی جاتی ہے جبکہ دوسری نگاہ میںعیاری اور دھوکہ ہے ۔

انہیں جملوں کی شرح کے بارے میں ابن الحدید کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت کے یہ جملات پڑھے تو اس کی تشریح میں یہ دو اشعار کہے :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next