اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت



 

2 ۔ جوانوں کی گمراھی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ھو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرھنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاھا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پھونچائی جائیں تاکہ آھستہ آھستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاھر ھے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنایا ۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رھی ھے ، اور مستقبل کی نبضوںکو جوانوں کے ھاتھو ںمیں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نھیں ھیں اور نہ ھی انقلاب سے پھلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ھیں ، اور صرف وہ اپنی خواھشوں کے پیروں ھیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ھوتی ھیں اور کبھی خواھشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ھے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور آھستہ آھستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراھم ھو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بھت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ھیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررھے ھیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نھیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پھونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ھے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ھیں ۔

 

3۔فرھنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اھل بیت علیھم السلام کے پیروں ھیں اور ائمہ علیھم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ھے، اور یہ اعتقاد رکھتے ھیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ھیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاھے ،اور جب تک زندہ رھیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رھے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاھتا ھے ،اور دشمن کی تمنا یہ ھے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رھے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ھے کہ دین اسلام ھمارا حاکم ھے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ھیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ھے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ھے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نھیں پھونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاھئے لیکن کس طرح؟ ظاھر ھے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ھی ان تک پھونچائے جاسکتے ھیں، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پھونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ھی ان کا مطلوب ھے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ھوگیا تو پھر کوئی دوسرا 13/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نھیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ھوسکتا ھے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ھو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ھو،لیکن اگر شک پیدا ھوجائے تو کافی ھے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ھٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ھے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ھوجائے ۔

انھیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ھیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next