اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت



2۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا ۔

3۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا ۔

لھٰذا طبیعی طورپر ھمارا بھی تین گروھوں سے مقابلہ ھے پھلا گروہ وہ ھے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ھے کہ دین سیاست سے جدا ھے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ھیں اور سیاست وحکومت جدا ھے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ھمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا ۔

دوسرا گروہ وہ ھے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ھے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ھیں، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ھونا چاھئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ھی کا قائل نھیں ھے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ھوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ھو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ھو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بھر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ھیںلیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نھیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نھیں ھے کہ پھلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ھے کہ کوئی خدا ھے اور اس نے انسانوں کی ھدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ھے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاھئے اور جس سلسلہ میں ھم بحث کرنا چاھتے ھیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ھے کہ بعض لوگ قبول کرتے ھیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ھی نھیں کرتے ۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ھمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ھوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ھیں یعنی ممکن ھے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ھے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں، ایسی صورت میں عقلی برھانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ھو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ھو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیھم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ھے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ھی نھیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ھے؟!

اس کو سمجھانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ھوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ھے وہ لوگ ایک قدم آگے ھیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ھیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواھد کو مدرک قرار دینا ھوگا ۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواھد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نھیں ھوگی۔

خلاصہ یہ کہ ھماری بحث بھی مختلف پھلو رکھتی ھے لھٰذا ھماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ھوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ھوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ھوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ھم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ھے یا شرعی؟ اس وجہ سے پھلے یہ عرض کردینا مناسب سمجھا کہ ھماری بحث کے مختلف طریقے ھوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next