اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت



 

6۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مھم مسئلہ بھی ھے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ھوسکتی ھے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریںگے:

یھاں پر بحث یہ ھے کہ دین کے حدود کھاں تک ھیں؟ جس وقت ھم یہ بحث کرتے ھیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ھے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ھے یا نھیں ۔

تو سب سے پھلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ھے کہ دین کیا ھے دین کی صحیح تعریف ھمارے پاس ھونا چاھئے تاکہ اس کی بنیاد پر ھم اس کے حدودمعین کرسکیں، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ھے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ھے یا نھیں؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ھیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ھیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ھے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ھے یا نھیں؟ بھر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت سی بحثیں کی ھیں، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ھیں ۔

”مثلاًدین سے ھماری امیدیں“ یعنی دین سے ھماری امیدیں حداقل درجہ پر ھیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ھوتا ھے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پھلوٴں کو شامل ھوتا ھے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ھوتے ھیں)وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ھیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ھے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ھو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ھو،یعنی دین کا کام یہ ھے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ھم آھنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ھے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کھنا بھت آسان ھے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ھے، اور سیاست دین سے الگ ھے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ھے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نھیں ھے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ھوں کہ جھاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رھے اور جھاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ھو تو پھر وھاں دین سے کوئی رابطہ نھیں کیونکہ دین کے حدود وھاں تک محدود ھیں کہ جھاں پر عقل کی رسائی اور پھنچ نہ ھو ۔

لھٰذا اگر ھم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ھوگئے کہ جن مسائل کو ھماری عقل حل کرسکتی ھے وھاں دین کی کوئی ضرورت نھیں ھے اور ھم کو دین کی ضرورت وھاں ھے کہ جھاں ھماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ھو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارھا ھے اور انسان ترقی کررھا ھے دین کی ضرورت کم ھوتی جارھی ھے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وھاں ھے کہ جھاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ھے ۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نھیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بھت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نھیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور آھستہ آھستہ اس کو دین کی ضرورت کم ھوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نھیں ھے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ھے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ھے اور کوئی امید بھی نھیں ھے کہ ان کو جلد ھی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ھے،( افسوس کہ یہ وہ لوگ ھیں جومسلمان ھونے کا دعوی کرتے ھیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ھیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ھوگئی ھے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نھیں ھے ) بھر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ھوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نھیں ھے،اور جب ھم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ھیں، تو پھر دین کیا ضرورت ھے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ھم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ھم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ھیں اور شروع ھی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ھے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ھیں ھماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ھے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نھیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ھیں، یہ بھی بے بنیاد اور بے ھودہ گفتگو ھے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں، یہ دین کی نامکمل تعریف ھے، بلکہ دین وہ طریقہ ھے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاھے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ھے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ھو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ھیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ھوں، تو اس کا دین بھی ناقص ھوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next