اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت



الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پھلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ھموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ھوچکا تھا بھت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیںجس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ھوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ھے ۔

اپنے اسی ھدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ھموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ھو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ھے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بھت راستہ پھلے سے ھی ھموار تھا کیونکہ انقلاب سے پھلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بھت بڑی دیوار حائل ھے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ھوئیں ،کتابیںبھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ھوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ھوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ھے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ھے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ھے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نھیں ھونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینیۺ کی دل نشین آوازیںگونج رھی ھیں، اور مرحوم مدرس ۺ کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ھماری دینداری اور ھماری سیاست ایک ھی ھے) کو اتنی آسانی سے نھیں بھلاسکتے تھے ۔

 

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ھے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ھے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ھونے چاھئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ھونا چاھئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نھیں ھے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ھونا کافی ھے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ھونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نھیں ھے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ھوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نھیں ھیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ھے اور وہ اس بات کے قائل رھے کہ دین اور سیاست باھم ھیں تو ھم کھیں گے کہ دین اور سیاست باھم ھیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ھے کہ دینی احکام جاری ھوں، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ھے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نھیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وھی حاکم ھے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ھے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ھو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ھیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ھو اس کو قبول نھیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ھو ، غیر قابل قبول ھے ۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ھونے کے سلسہ میں) بھت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ھے، مختلف اخباروں ، ماھناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارھا ھے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رھتے ھیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ھونے کا نظریہ رکھتے ھیں ان کے ذھنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ھے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نھیں ھے ۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ھوسکتا ھے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ھیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نھیں ھوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاھے، اپنی تمام زندگی میں اھمیت دیتے ھیں اور جیسا کہ دنیا بھر میںیہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشھور ھے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next