ملک شام کا دوسرا سفر



رسول اکرم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ھر شخص قائل تھا۔

حضرت خویلد کی دختر حضرت خدیجہ بھت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں انھیں اپنے والد سے بھت سا مال ورثے میں ملا تھا وہ بھی مکہ کے بھت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں جس وقت انھوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انھوں نے رسول خدا کے سامنے یہ تجویز رکھی۔ اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لئے ملک شام تشریف لے جائیں تو جتنا حصہ دوسروںکو دیتی ھوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دونگی۔

رسول خدا نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ''نامی غلام کے ھمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ھوئے۔

کاروان تجارت میں رسول اکرم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لئے نھایت ھی سودمند و منفعت بخش ھوا اور انھیں توقع سے زیادہ منافع ملا، نیز رسول خدا کو سب سے زیادہ نفع حاصل ھوا سفر کے خاتمہ پر ”میسرہ''نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔

حضرت خدیجہ کے ساتھ شادی

حضرت خدیجہ رشتے میں پیغمبر اکرم کی چچا زاد بھن تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصیٰ بن کلاب سے جا ملتا تھا حضرت خدیجہ کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ھوئی تھی جو نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانۂ کعبہ کا حامی (۸) و پاسدار تھا اور خود حضرت خدیجہ اپنی عفت و پاکدامنی میں ایسی مشھور تھیں کہ دور جاھلیت میں انھیں ”طاھرہ''اور ”سیدہ قریش“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ان کے لئے بھت سے رشتے آئے اگرچہ شادی کے خواھشمند مھر ادا کرنے کے لئے کثیر رقم دینے کے لئے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کے لئے آمادہ نہ ھوئیں۔

جب رسول خدا ملک شام سے سفر تجارت کے بعد واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ سے شادی کرنے کا اظھار کیا۔

رسول خدا نے اس مسئلہ کو حضرت ابوطالب اور دیگر چچاوٴں کے درمیان رکھا سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آپ نے قاصد کے ذریعہ حضرت خدیجہ کو اس رشتہ کی منظوری کا مثبت جواب دیا رشتہ کے منظور کئے جانے کے بعد حضرت ابوطالب اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حضرت خدیجہ کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ کے گھر پر محفل تقریب نکاح منعقد ھوئی اور نکاح کا خطبہ دولھا اور دلھن کے چچاوٴں ”حضرت ابوطالب“ اور ”عمر بن اسد“ نے پڑھا۔

شادی کے وقت رسول خدا کا سن مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔

حضرت خدیجہ سے شادی کے محرکات

بعض وہ لوگ جو ھر چیز کو مادی مفاد کی نظر سے دیکھتے ھیں انھوں نے اس شادی کو بھی مادی پھلو سے ھی دیکھا ھے اور یہ ظاھر کیا ھے ۔

چونکہ حضرت خدیجہ کو تجارتی امور کے لئے کسی مشھور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اس لئے انھوں نے پیغمبر اسلام سے شادی کا پیغام بھیجا دوسری طرف پیغمبر اکرم یتیم و نادار تھے اور حضرت خدیجہ کی شرافت مندانہ زندگی سے واقف تھے اسی لئے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا اگرچہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next