ملک شام کا دوسرا سفر



و اٴنذِر عشیرتک الاقربین۔

اپنے رشتہ داروں کو عذاب الٰھی سے ڈرائیے

پیغمبر اکرم نے حضرت علی (ع) کو اس کام پر مقرر کیا کہ آپ (ع) کھانے کا انتظام کریں اور آنحضرت کے عزیز و اقارب کو کھانے پر بلائیں تاکہ ان تک خداوند تعالیٰ کا پیغام پھونچا دیں۔

تقریباً چالیس یا پینتالیس آدمی آپ کے دسترخوان پر جمع ھوئے، رسول خدا چاھتے تھے کہ لوگوں سے گفتگو کریں مگر ابولھب نے غیر متعلقہ باتیں شروع کرکے اور آپ پر سحر و جادوگری کا الزام لگا کر محفل کو ایسا درھم برھم کیا کہ اس میں اصل مسئلہ کو پیش نہ کیا جاسکا۔

اگلے روز آپ نے دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا جب لوگ کھانے سے فارغ ھوگئے تو رسول خدا اپنی جگہ سے اٹھے اور تقریر کے دوران فرمایا:

اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں ایک بھی ایسا جوان نظر نھیں آتا کہ وہ اس سے بھتر چیز لے کر آیا ھو جو میں اپنی قوم کے لئے لے کر آیا ھوں، میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی خیر (بھلائی) لے کر آیا ھوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ھے کہ میں تمھیں اس کی طرف دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمھارے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین بن سکے۔

فاٴیکم یوازرنی علی ھذا الامر علی ان یکون اخی و وصیی و خلیفتی؟

رسول خدا نے تین مرتبہ اپنی بات دھرائی اور ھر مرتبہ حضرت علی (ع) ھی نے اٹھ کر اعلان کیا کہ میں آپ کی مدد و پشتیبانی کروں گا، اس پر رسول خدا نے فرمایا:

انّا ھذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ اطیعوا

یہ ۔علی۔ تمھارے درمیان میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ھیں ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next